مرادآباد: اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے ہندو کالج میں ڈریس کوڈ تنازعہ پر کالج کے پرنسپل ایس کے راوت نے کہا کہ کالج میں گزشتہ برس 15 اکتوبر کو ہی ڈریس کوڈ نافذ کردیا گیا تھا، تاہم یکم جنوری کو کالج میں نوٹس چسپاں کرکے تمام طلبہ کو اس سے مطلع بھی کردیا گیا تھا کہ کالج میں ڈریس کوڈ کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔ یہ فیصلہ اساتذہ اور طلبہ تنظیموں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔
پرنسپل نے مزید کہا کہ کالج میں برقعہ پہن کر آنے والی کچھ لڑکیوں کو صدر گیٹ پر روک کر سمجھایا گیا تھا اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو ان طالبات کے لیے صدر گیٹ پر ایک چینج روم بھی بنایا گیا ہے جہاں وہ اپنا برقعہ اتار کر ڈریس کوڈ کے ساتھ کالج کیمپس میں داخل ہوسکتی ہیں۔ لیکن پرنسپل نے یہ بھی واضح کردیا کہ لڑکیاں اسکارف یا حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوسکتی ہیں لیکن برقعہ میں نہیں۔ پرنسپل نے کہا کہ گزشتہ روز کیے جانے والا احتجاج کالج کی مہم اور نظم و ضبط کے ماحول کو خراب کرنے اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں سماج وادی چھاتر سبھا کے اراکین نے کالج کے ڈریس کوڈ میں برقعہ کو شامل کرنے اور لڑکیوں کو اسے پہن کر اپنی کلاس میں جانے کی اجازت دینے کے لیے ایک میمورنڈم پیش کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Hijab Case In Moradabad College باحجاب مسلم طالبات کو کالج کیمپس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا
واضح رہے کہ اس سے قبل جنوری 2022 میں کرناٹک کے متعدد اضلاع میں ایسا معاملہ سامنے آیا تھا، سب سے پہلا کیس ریاست کے اڈوپی ضلع میں گورنمنٹ گرلز پی یو کالج کی کچھ باحجاب طالبات نے الزام لگایا کہ انہیں کلاسز میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ بعد میں یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں گیا جہاں ہائی کورٹ نے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کی اجازت طلب کرنے والی عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ یہ اسلامی عقیدے میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد عرضی گزار نے سُپریم کورٹ کا رخ کرتے ہوئے اس معاملے کی فوری سماعت کی درخواست کی تھی لیکن عدالت عظمیٰ نے فوری سماعت سے انکار کر دیا اور معاملہ ابھی سُپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔