اس موقع پر جہاں ماٹی کلا بورڈ کے افسران نے ان الیکٹرانک چاک کی خوبیاں بیان کیں، تو وہیں اس کے کاریگروں نے کہا کہ چاک تو وہ حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن جس طرح سے گذشتہ 6 ماہ سے خریدار غائب ہیں اس کا کیسے نظم کیا جائے؟
دستکاری کے ذریعہ مٹی سے برتن اور دیگر ضروریات کا سامان بنانے کا رواج صدیوں پرانہ بھی ہے اور پورے طور پر قدرتی وسائل سے تیار کیے جانے کی وجہ سے انسان دوست بھی۔
یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید ٹکنالوجی کے دور میں بھی اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ وہیں سرکاریں بھی اس ہنر کو بڑھاوا دینے کے لیے اس کے کاریگروں کو کچھ سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں۔
ریاست میں اترپردیش ماٹی کلا بورڈ کے نام سے خصوصی شعبہ بھی قائم ہے۔ آج اس بورڈ کی جانب سے رامپور ضلع سے 20 ایسے افراد کا انتخاب کیا گیا، جو ہاتھ سے گھمانے والے چاک سے ہی برتن بناتے تھے۔ آج ان کو الیکٹرانک چاک ویل تقسیم کیے گیے۔
گرام ادھیوگ کے افسر آئی اے خان نے جانکاری دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ سال کا ہدف 80 چاک تقسیم کرنے کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی 23 منتخب افراد کو چاک تقسیم کیے جا چکے ہیں اور باقی بھی جلد ہی تقسیم کر دیے جائیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے الیکٹرانک چاک کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں مٹی کے فن سے جڑے کاریگر ایک دن میں اگر 50 کلڑ بناتا ہے تو اس الیکٹرانک چاک سے وہ تقریباً 400 کلڑ بنا سکتا ہے۔
اس موقع پر جن امیدواروں کو چاک دیے گیے وہ کافی خوش نظر آئے۔ پرتاپور ہرداس پور گاؤں سے چاک حاصل کرنے پہنچے وید پرکاش نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سال ان کے والد کو حکومت کی جانب سے چاک دیا گیا تھا اور اس مرتبہ ان کو بھی یہ الیکٹرانک چاک مل گیا ہے۔
وہیں مٹی کے ہنر کے اس کام سے جڑے کاریگر راجویر پرجاپتی کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ الیکٹرانک چاک تو دے دیے ہیں لیکن گذشتہ چھ ماہ سے جس طرح سے تمام کام بند ہیں۔
مزید پڑھیں:
رکن پارلیمان اعظم خان کے قریبی سابق سی او سٹی گرفتار
ایسے میں ان چاک کا کیا استعمال کیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ پہلے سے ہی ان کے پاس اسٹاک میں اتنا مال تیار رکھا ہوا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے خرید بالکل نہیں آ رہے ہیں۔