اس دوران خواتین مقررین نے حکومت کو متنبہ کیا کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے دیوبند سے ایک بڑی تحریک چلائی گئی تھی اس بار بھی دیوبند شہر ملک کو فرقہ وارانہ سوچ کے طوق سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
متحدہ خوتین کمیٹی دیوبند کے بینر تلے جاری مظاہرے میں ارم عثمانی اور فوزیہ عثمانی نے کہا کہ 'ہمارے بزرگوں نے ملک کی آزاد ی کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں جس کے نتیجے میں ہم آج کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ملک کا آئین ہمیں پُرامن طریقے سے حکومت کے غلط فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے اور اپنے مطالبات منوانے کا حق دیتا ہے، اسی آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے 'دیوبند ستیہ گرہ' کے ذریعہ ہم حکومت کے اس متنازع کے خاتمے تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے۔
چند دیگر خواتین نے قومی دارالحکومت دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور اس کے بعد کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'آج ملک میں جو بھی صورتحال ہے اس کے لیے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے، وہیں عیدگاہ میدان میں خواتین کے دھرنے میں عظیم شخصیات، آئین ہند کی بک لیٹ، شہید پارک، ڈیٹیشن کیمپ کے بعد اب تقریباً دس فٹ اونچی مشعل بھی جلائی گئی ہے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔