نوابی دور سے لکھنؤ میں یہ روایت رہی ہے کہ شہر کے تمام امام بارگاہ اور دوسرے مذہبی مقامات کی صاف صفائی، رنگ روغن اور تعزیہ بنانے کا کام کافی پہلے سے ہی شروع ہو جاتا ہے تاکہ بروقت تیاریاں مکمل ہو جائیں۔
گذشتہ برس کی طرح کورونا وائرس نے انسانی زندگی میں گہرا اثر چھوڑنے کے ساتھ ہی تہواروں کا رنگ بھی پھیکا کر دیا ہے۔
تعزیہ ساز نسیم علی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ لکھنؤ میں تعزیہ بنانے کا کام 1999 سے کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حسین آباد ٹرسٹ نے تعذیہ بنانے کے لیےجو ٹینڈر جاری کیا تھا، اُسکی جانکاری ہم لوگوں کو نہیں ہوئی۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلے ماہ رمضان کے 15 روز قبل ہی ٹینڈر جاری ہوتا تھا اور عید کے دوسرے دن سے ہی ہم لوگ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیتے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ نسیم علی ضلع بہرائچ کے رہنے والے ہیں اور بچپن سے ہی اسی کام میں مصروف ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں نوابی دور سے تعذیہ بنانے کا کام ہوتا آرہا ہے۔ ہم لوگ جذباتی طور پر اس کام سے منسلک ہیں۔ لہٰذا ہر سال تعزیہ بناتے ہیں۔
نسیم نے بتایا کہ پہلے تعزیہ بنانے کے لیے چار سے پانچ ماہ کا وقت ملتا تھا لیکن کورونا کے سبب گزشتہ برس صرف ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا ۔
جب کہ اس بار ٹینڈر کب جاری کیا گیا، ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں ہوا لہٰذا آج ٹرسٹ کے ذمے داران سے معلوم کیا تو احمد مہدی نے بتایا کہ ٹینڈر کی تاریخ گزر گئی ہے، اب ایک درخواست دے دو۔
سال 2015 میں تعزیہ بنانے کے لیے حسین آباد ٹرسٹ نے 2 لاکھ 55 ہزار روپیے دیئے تھے اور 2020 میں بھی وہی رقم دی گئی تھی جبکہ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 2016 تک بطور انعام 50 ہزار روپیے ملتے تھے لیکن اس کے بعد سے صرف 10 ہزار روپیے ملنے لگا۔ انہوں نے حسین آباد ٹرسٹ اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد سے جلد ٹینڈر جاری کریں تاکہ ہم لوگ اپنا کام شروع کرسکیں۔
وسیم نے بتایا کہ تعزیہ سازی کے لیے بانس کی ضرورت پڑتی ہے، اگر بارش شروع ہوگئی تو انہیں سکھانا مشکل ہوگا۔ گیلے بانس سے تیلیاں اچھی نہیں بن پائیں گی۔
وسیم علی نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تعزیہ بنانے کے لیے ہمیں ہر سال 50 ہزار روپیے اضافی رقم دی جائے، ساتھ ہی انعام کو دوبارہ 10 ہزار روپیے سے 50 ہزار روپیے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اضافی مزدوری کے لیے ٹرسٹ کے ذمہ داران کو خط لکھ کر اپنی پریشانی بتائی ہیں لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا جاسکا ہے۔