اتر پردیش حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب قانون نافذ کرنے کے بعد سے ہی ریاست کے کئی اضلاع میں بین مذاہب شادی کو پولیس نے روک دیا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ دارلحکومت لکھنؤ کا تھا، جسے پولیس نے فورا روک دیا تھا۔
وہیں، اتر پردیش کے ضلع سیتا پور میں ایک ہی کنبہ کے 12 لوگوں کو تبدیلی مذہب قانون کے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ضلع سیتا پور کے تھانہ تمبور گاؤں ماکھو بیہر میں ایک ہندو لڑکی مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی جس کے بعد پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے لڑکے کے پورے کنبہ کو ہی جیل میں ڈال دیا ہے۔
اس معاملے پر الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ جسٹس راجیو سنہا اور جسٹس راجیو سنگھ نے بدھ کو سماعت کے دوران ایڈوکیٹ آئی بی سنگھ اور ان کی ٹیم سے کہا کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت داخل موجودہ عرضی پر سماعت نہیں کرے گا۔ لیکن کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 482 کے تحت پٹیشن داخل کریں تو کورٹ سماعت کر سکے گا۔
واضح رہے کہ سیتا پور کے سرویش کمار شکلا نام کے شخص نے اپنی بیٹی کے کسی کے ساتھ فرار ہونے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ لڑکی اپنے عاشق جبریل کے ساتھ فرار ہوگئی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت کا ہے جب اتر پردیش میں انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون نافذ نہیں ہوا تھا۔
باوجود اس کے پولیس نے اس معاملے میں تبدیلی مذہب قانون کے تحت کاروائی کی ہے۔ لڑکے کے گھر کے تقریبا تمام افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ اس معاملے میں جمعیت علماء نے لڑکے کے خاندان کی مدد کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔
وہیں اس معاملے میں ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اس قانون کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو کمزور کر کے ملک کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ جب تک سماج میں نفرت رہے گی تب تک حکومت کا کام آسان بنا رہے گا۔ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ہندو مسلم عوامی مسائل پر ایک ہو کر تحریک چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے والا ہے اور آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اگر لڑکی مسلم اور لڑکا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے تب شادی ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس لڑکی کا ہندو مذہب سے تعلق ہونے پر پولیس شادی روک دیتی ہے اور کاروائی کرتی ہے۔"
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ "اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے لہذا رہائی منچ ، ساجھی دنیا اور ہم سفر تنظیموں نے طے کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو قانونی مدد دی جائے گی۔"
انہوں نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون بنانے کا مقصد یہ ہے کہ جو جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ اسی مذہب پر رہیں ۔ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے لوگ مسلم یا عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں، جس کا ہمیشہ سے ہندووادی تنظیموں نے سخت عتراض کیا ہے۔
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین کسی بھی مذاہب کو ماننے کی آزادی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسے کورٹ میں چیلینج کیا گیا ہے
واضح رہے کہ کہ سپریم کورٹ میں اتر پردیش اور اترا کھنڈ تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔