ETV Bharat / international

پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج: چار رینجرز اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد فوج کو طلب کیا گیا، شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم - PAKISTAN PROTEST

پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران چار رینجرز اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ 5 رینجرز شدید زخمی ہوگئے۔

عمران خان کے حامی اسلام آباد میں داخل
عمران خان کے حامی اسلام آباد میں داخل (AP)
author img

By PTI

Published : Nov 26, 2024, 7:56 AM IST

اسلام آباد/لاہور: پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے بیچ پیر کو ہوئیں جھڑپوں میں کم از کم ایک پولیس اہلکار ، چار رینجرز اہلکار ہلاک ہوگئے، اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ پارٹی کے بانی عمران خان کی کال پر پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں مظاہرین قومی دارالحکومت کے علاقائی دائرہ اختیار میں داخل ہوئے ہیں۔

پاکستان کی وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے۔ جس کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلایا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ قانون توڑنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق فوج کو کسی بھی علاقے میں امن امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کرفیو لگانے کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کو انتشار پھیلانے والوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات بھی دیے گئے ہیں۔

گزشتہ سال اگست سے جیل میں قید 72 سالہ سابق وزیر اعظم نے 24 نومبر کو ملک گیر مظاہروں کے لیے حتمی کال جاری کی تھی، جس میں انہوں نے چوری شدہ مینڈیٹ، لوگوں کی غیر منصفانہ گرفتاریوں اور 26ویں ترمیم کی منظوری کے خلاف احتجاج کی اپیل کی تھی۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں مارچ کرنے والوں نے اتوار کے روز عسکریت پسندی سے متاثرہ صوبے سے اپنے سفر کا آغاز ڈی چوک پر دھرنا دینے کے مشن کے ساتھ کیا۔ یہاں ایوان صدر، وزیراعظم آفس، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی عمارتیں ہیں۔

حکام نے شپنگ کنٹینرز رکھ کر شاہراہوں کو بند کر دیا تھا لیکن مظاہرین نے بھاری مشینوں سے رکاوٹوں کو ہٹا کر اپنا کام کیا، لیکن اس سے ان کی رفتار اور منصوبوں میں کمی دیکھی گئی۔

کے پی سے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا۔ پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسف زئی کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان نے خبر دی کہ قافلہ سنگ جانی ٹول پلازہ سے اسلام آباد میں داخل ہوا۔ پارٹی نے اسلام آباد کی حدود میں کے پی کے قافلے کی فوٹیج بھی شیئر کی۔

حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریلیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن نتائج سے بے خوف، مظاہرین رکاوٹیں ہٹا کر اور سیکورٹی اہلکاروں سے ٹکراتے ہوئے آگے بڑھے۔

ایک جھڑپ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی تھی جس سے 4 رینجرز اہلکار شہید جب کہ 5 رینجرز اور 2 پولیس کے جوان بھی شدید زخمی ہوگئے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے پولیس اہلکار کے جاں بحق ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی نشاندہی کرکے انہیں عبرتناک سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کے نام پر پولیس اہلکاروں پر حملہ قابل مذمت ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ پرتشدد مظاہرین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے مظاہرین شام کو دارالحکومت کے علاقے میں داخل ہوئے۔ بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ لوگ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور جو لوگ باہر نہیں آئے انہیں دارالحکومت پہنچنے کی دعوت دی۔

پی ٹی آئی کو اپنا احتجاج ختم کرنے یا شہر سے دور کسی مقام پر احتجاج کرنے پر راضی کرنے کی کوششوں کی اطلاعات تھیں کیونکہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو تین روزہ دورے پر اسلام آباد میں تھے۔ لیکن بشریٰ بی بی نے حکومت کی اپیل کو مسترد کر دیا۔

اسلام آباد/لاہور: پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے بیچ پیر کو ہوئیں جھڑپوں میں کم از کم ایک پولیس اہلکار ، چار رینجرز اہلکار ہلاک ہوگئے، اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ پارٹی کے بانی عمران خان کی کال پر پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں مظاہرین قومی دارالحکومت کے علاقائی دائرہ اختیار میں داخل ہوئے ہیں۔

پاکستان کی وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے۔ جس کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلایا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ قانون توڑنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق فوج کو کسی بھی علاقے میں امن امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کرفیو لگانے کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کو انتشار پھیلانے والوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات بھی دیے گئے ہیں۔

گزشتہ سال اگست سے جیل میں قید 72 سالہ سابق وزیر اعظم نے 24 نومبر کو ملک گیر مظاہروں کے لیے حتمی کال جاری کی تھی، جس میں انہوں نے چوری شدہ مینڈیٹ، لوگوں کی غیر منصفانہ گرفتاریوں اور 26ویں ترمیم کی منظوری کے خلاف احتجاج کی اپیل کی تھی۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں مارچ کرنے والوں نے اتوار کے روز عسکریت پسندی سے متاثرہ صوبے سے اپنے سفر کا آغاز ڈی چوک پر دھرنا دینے کے مشن کے ساتھ کیا۔ یہاں ایوان صدر، وزیراعظم آفس، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی عمارتیں ہیں۔

حکام نے شپنگ کنٹینرز رکھ کر شاہراہوں کو بند کر دیا تھا لیکن مظاہرین نے بھاری مشینوں سے رکاوٹوں کو ہٹا کر اپنا کام کیا، لیکن اس سے ان کی رفتار اور منصوبوں میں کمی دیکھی گئی۔

کے پی سے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا۔ پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسف زئی کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان نے خبر دی کہ قافلہ سنگ جانی ٹول پلازہ سے اسلام آباد میں داخل ہوا۔ پارٹی نے اسلام آباد کی حدود میں کے پی کے قافلے کی فوٹیج بھی شیئر کی۔

حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریلیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن نتائج سے بے خوف، مظاہرین رکاوٹیں ہٹا کر اور سیکورٹی اہلکاروں سے ٹکراتے ہوئے آگے بڑھے۔

ایک جھڑپ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی تھی جس سے 4 رینجرز اہلکار شہید جب کہ 5 رینجرز اور 2 پولیس کے جوان بھی شدید زخمی ہوگئے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے پولیس اہلکار کے جاں بحق ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی نشاندہی کرکے انہیں عبرتناک سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کے نام پر پولیس اہلکاروں پر حملہ قابل مذمت ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ پرتشدد مظاہرین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے مظاہرین شام کو دارالحکومت کے علاقے میں داخل ہوئے۔ بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ لوگ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور جو لوگ باہر نہیں آئے انہیں دارالحکومت پہنچنے کی دعوت دی۔

پی ٹی آئی کو اپنا احتجاج ختم کرنے یا شہر سے دور کسی مقام پر احتجاج کرنے پر راضی کرنے کی کوششوں کی اطلاعات تھیں کیونکہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو تین روزہ دورے پر اسلام آباد میں تھے۔ لیکن بشریٰ بی بی نے حکومت کی اپیل کو مسترد کر دیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.