ضلع رامپور میں 'اردو افسانوی ادب کے فروغ میں روہیلکھنڈ کا حصہ' کے موضوع پر منعقد قومی سیمینار میں ملک کے مختلف خطوں سے آئے اسکالرز نے مختلف موضوعات پر اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔
اس موقع پر رضا کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی کے وارشنئے نے افتتحاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'رامپور اردو کا تیسرا اسکول ہے اور یہاں اردو زبان کی بہت اہمیت ہے۔'
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کی پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے اپنے مقالے میں رامپور کو اردو کا باوقار مرکز بتایا۔ انہوں نے کہا کہ 'ماضی کا زرخیز سرمایہ یہاں موجود ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'داستانوں کا بڑا ذخیرہ رضا لائبریری میں موجود ہے لیکن وہ عوام کے سامنے نہیں آیا ہے۔ ان داستانوں میں ماضی حال اور مستقبل پوشیدہ ہے۔'
انہوں بتایا کہ مولانا ابوالکلام آزاد، خلیق النسا اور ایس فضیلت کا تعلق روہیلکھنڈ سے ہے جنہوں نے افسانوں کے ذریعہ ملک میں شہرت حاصل کی۔
ڈائریکٹر رضا لائبریری پروفیسر حسن عباس نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ سیمینار کا موضوع بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی اور حال میں لکھے گئے افسانے زندگی اور سماج کا آئینہ ہیں جن میں زندگی کی جنگلات پر بحث کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افسانوں میں اپنے حساس جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ خامیوں اور خوبیوں کو مختلف زاویوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت ہے پوشیدہ تخلیق کاروں کو منظرعام پر لایا جائے۔
ڈاکٹر تبسم صابر نے اپنے مقالے میں کہا کہ رامپور میں نوابوں کے دور سے داستانوی فضاء عام ہونے سے داستان کی نجی صورت افسانے کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ 1857 کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے داستانوں کے شعرا کے ساتھ ادبا بھی رامپور میں جمع ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ رامپور کے خاص ماحول کی وجہ سے شعر و شاعری کا غلبہ رہا لیکن اس کے پہلو بہ پہلو اردو کی نثری اصناف نے ترقی کے مراحل طے کئے۔ اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کا مرکز منتقل ہونے سے رامپور میں افسانہ کو ترقی ملی۔
لکھنؤ سے تشریف لائے ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اردو افسانوی ادب کے فروغ میں روہیلکھنڈ کا حصہ کے عنوان پر کہا کہ معروف افسانہ نگار قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کا تعلق بھی اسی روہیلکھنڈ سے ہے