مقامی افراد کا یہ ماننا ہے کہ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت اگرچہ ترقیاتی امور کو شمار کراتے نہیں تھکتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
میرٹھ شہر میں کچھ ایسی بستیاں ہیں جہاں پر زندگی جینے کے لیے بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
میرٹھ کے نور نگر پلیا کے قریب واقع مدینہ کالونی جس میں بیشتر اقلیتی طبقے کے لوگ آباد ہیں گذشتہ کئی برسوں سے بدحال کا شکار ہے۔
میرٹھ کے مدینہ کالونی کی کچی گلیاں اطراف میں بہتے نالے اور کچروں کے ڈھیر شاید یہ سب کالونی کے مکینوں کے مقدر بن چکے ہیں۔
برسوں سے ان مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان آبادیوں میں بڑی تعداد یومیہ مزدوری کرنے والے افراد آباد ہیں۔ صحت کی نامناسب سہولیات کو اموات میں اضافہ کی اہم وجوہات قرار دیا جا رہا ہے۔
وہی شہر میں ان آبادیوں کی حالت اس حد تک گندی ہو چکی ہے کی وہاں پر صحت و صفائی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ ہے بیماریوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔
علاقائی لوگوں کا کہنا ہے کہ کالونی میں موجود ہر گھر سے حکومت کو ہاؤس ٹیکس دیا جارہا ہے بلکہ اب ہاؤس ٹیکس اضافہ بھی کیا گیا ہے لیکن سہولیات کے نام پر پر کچھ بھی میسر نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے لیے میرٹھ سے خورشید احمد کی خصوصی رپورٹ
مدینہ کالونی کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ اس طرف مہمان بھی آنا پسند نہیں کرتے شادی بھی دوسرے علاقے میں جا کر کرتے ہیں جب کہ اسکول جانے والے طلباء و طالبات کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سڑک پر پانی اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کئی چھوٹے بچے ڈوب کر مر چکے ہیں اس کے باوجود کونسلر نے کبھی بستی کا جائزہ بھی نہیں لیا۔
کالونی کے ایک نوجوان نے بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے کالونی کے لوگوں نے ترقیاتی کاموں کیلئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سمیت کئی افسروں سے ملاقات کرچکے ہیں۔
کالونی والے نے بھوک ہڑتال بھی کیے ہیں اور افسران نے یقین دہانی بھی کرایا ہے کالونی کی ترقی کی جائے گی لیکن اب تک ضلع انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ اب کالونی کے لوگوں میونسپلٹی سے ناامید ہوکر نے فیصلہ کیا ہے کہ جو وقت ہم احتجاجی مظاہروں میں گزارتے تھے اب اس وقت میں مزدوری کرکے وہ رقم کالونی کے ترقیاتی امور میں خرچ کریں گے اس کے نتیجے میں اب کالونی کے لوگوں نے چندہ کیا اور تقریبا تین لاکھ کی خرچ سے ایک سڑک تعمیر کرارہے ہیں اور مزید دیگر منصوبوں پر چند کا سلسلہ جاری ہے۔