ETV Bharat / state

Tributes Paid to Gopi Chand Narang: گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست - Tributes to Gopi Chand Narang

معروف نقاد، ادیب، ماہر لسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیئرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ Gopi Chand Narang کے انتقال پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ شرکا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو ادب کی آبرو تھے، وہ اردو ادب کی ایک ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے نہ صرف ادب کو مالا مال کیا، بلکہ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھا، ایسا کھبی نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی کو پس پشت ڈالا ہو۔ Tributes to Gopi Chand Narang

Condolence meet organised to pay tributes to great litterateur Gopi Chand Narang in amu
گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست
author img

By

Published : Jun 30, 2022, 5:35 PM IST

علی گڑھ: معروف نقاد، ادیب، ماہر لسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیئرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ Gopi Chand Narang کے انتقال سے اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا Tributes to Gopi Chand Narang۔ گوپی چند نارنگ اردو ادب میں موجودہ عہد کے آخری بڑے نقاد تھے۔ گوپی چند نارنگ 15 جون کو 91 برس کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی پیدائش 11 فروری 1931 کو ڈکی، زیریں پنجاب میں ہوئی۔ قابل ذکر ہے کہ گوپی چند نارنگ تقریباً 64 کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو زبان میں ان کی 45 کتابیں ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی 12 انگریزی میں اور 7 ہندی میں کتابیں ہیں۔

ویڈیو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے صدر شعبہ، کوآرڈینیٹر سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈیز پروفیسر محمد علی جوہر نے شعبہ اردو میں گوپی چند نارنگ کے انتقال پر تعزیتی جلسے میں گوپی چند نارنگ کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ "مابعد جدید تھیوری کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ وہ ایک نظریہ ساز، نقاد اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ غزل، فکشن اور تحقیق جیسی اصناف پر حوالہ جاتی کام کیا۔ وہ ادیب کے ساتھ ہی منتظم بھی تھے جس کے گواہ دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے ساتھ ہی وہ سیمینار و سیمپوزیم بھی ہیں جو انہوں نے کرائے۔ وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کا خیال رکھتے تھے، یہ ان کا بڑا اوصف تھا۔ اب ایسے لوگ کہاں موجود ہیں۔ نارنگ کے انتقال پر ہم سب رنجیدہ ہیں اور دعا گو ہیں کہ ان کا نعم البدل اردو دنیا کو عطا ہو۔

پروفیسر طارق چھتاری نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ گوپی چند نارنگ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے نقوش ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں، اگر کسی میں خواہش ہے جذبہ ہے تو وہ ان کے نقوش سے کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ کے بزرگ ادیبوں کے حوالے سے کہاکہ پہلے زمانے میں ان لوگوں نے بھی گوپی چند نارنگ کی طرح محنت کرنے والا نہیں دیکھا، یہی وجہ ہے کہ زندگی میں انہوں نے اتنی بڑی بڑی کامیابی حاصل کیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو نارنگ صاحب کی مادری زبان نہیں تھی، ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن اردو ایک شیریں زبان ہے یہ نارنگ کہ خطبات سن کر ہی یقین آیا کیوں کہ جس انداز میں وہ بولتے تھے وہ انداز کسی اور کے پاس نہیں تھا۔'


پروفیسر سراج اجملی نے کہاکہ "پروفیسر گوپی چند نارنگ کی طرح اردو دنیا میں کوئی موجود نہیں، انہوں نے اس مقام و مرتبے تک پہنچنے کے لیے حد درجہ جدوجہد کی۔ انہوں نے اپنا ایک ایک لمحہ ترتیب و تنظیم کے ساتھ صرف کیا جو نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی یہ ریاضت عین حیات رہی اس لیے ان کو رول ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔'

پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہاکہ گوپی چند نارنگ آسمان تھے اور ہم زمیں ہیں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو اس قابل بنایا کہ وہ ادبی منظرنامہ کو روشن کر سکیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے نامساعد حالات میں اپنی جدوجہد سے ایک مقام حاصل کیا جبکہ آج ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں، وہ اپنے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر حد درجہ شفقت کرتے تھے۔ '

پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ صرف اردو کی نہیں ہم اردو والوں کی بھی آبرو تھے کیونکہ پوری دنیا میں اردو اور اردو والوں کا بھرم ان کی وجہ سے قائم تھا، گوپی چند نارنگ جہاں ماہر لسانیات، محقق اور قلم کے دھنی تھے انہوں نے گوپی چند نارنگ کی مختلف کتابوں اور تحقیقات کے حوالے سے کہاکہ اردو ادب میں ہندستانیت اور ہندوستانی عناصر تلاش کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔'

پروفیسر ضغیر بیگ افراہیم نے کہاکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں جب پہلی بار انہوں نے میرا وائیوا لیا تب سے آج تک ہمیشہ ان کی عظمت میرے دل میں بڑھتی ہی گئی۔ آپ نے ستر سالہ علمی و عملی زندگی میں جو علمی و ادبی سرمایہ کی صورت میں حاصل کیا اسے کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک نظریہ ساز نقاد، محقق اور ماہر لسانیات تھے، انہوں نے ادب کے ہر شعبہ میں اپنے نقوش ثبت کیے ہیں۔ دہلی اردو اکیڈمی، قومی کونسل اور ساہتیہ اکیڈمی کا جو قد بڑھا ہے اس میں گوپی چند نارنگ کا اہم کردار ہے کیونکہ اپنی سربراہی کے زمانے میں ان اداروں کو ترقی دینے کے لیے وہ ہر وقت کوشاں رہے۔'

مزید پڑھیں:

علی گڑھ: معروف نقاد، ادیب، ماہر لسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیئرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ Gopi Chand Narang کے انتقال سے اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا Tributes to Gopi Chand Narang۔ گوپی چند نارنگ اردو ادب میں موجودہ عہد کے آخری بڑے نقاد تھے۔ گوپی چند نارنگ 15 جون کو 91 برس کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی پیدائش 11 فروری 1931 کو ڈکی، زیریں پنجاب میں ہوئی۔ قابل ذکر ہے کہ گوپی چند نارنگ تقریباً 64 کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو زبان میں ان کی 45 کتابیں ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی 12 انگریزی میں اور 7 ہندی میں کتابیں ہیں۔

ویڈیو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے صدر شعبہ، کوآرڈینیٹر سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈیز پروفیسر محمد علی جوہر نے شعبہ اردو میں گوپی چند نارنگ کے انتقال پر تعزیتی جلسے میں گوپی چند نارنگ کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ "مابعد جدید تھیوری کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ وہ ایک نظریہ ساز، نقاد اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ غزل، فکشن اور تحقیق جیسی اصناف پر حوالہ جاتی کام کیا۔ وہ ادیب کے ساتھ ہی منتظم بھی تھے جس کے گواہ دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے ساتھ ہی وہ سیمینار و سیمپوزیم بھی ہیں جو انہوں نے کرائے۔ وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کا خیال رکھتے تھے، یہ ان کا بڑا اوصف تھا۔ اب ایسے لوگ کہاں موجود ہیں۔ نارنگ کے انتقال پر ہم سب رنجیدہ ہیں اور دعا گو ہیں کہ ان کا نعم البدل اردو دنیا کو عطا ہو۔

پروفیسر طارق چھتاری نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ گوپی چند نارنگ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے نقوش ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں، اگر کسی میں خواہش ہے جذبہ ہے تو وہ ان کے نقوش سے کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ کے بزرگ ادیبوں کے حوالے سے کہاکہ پہلے زمانے میں ان لوگوں نے بھی گوپی چند نارنگ کی طرح محنت کرنے والا نہیں دیکھا، یہی وجہ ہے کہ زندگی میں انہوں نے اتنی بڑی بڑی کامیابی حاصل کیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو نارنگ صاحب کی مادری زبان نہیں تھی، ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن اردو ایک شیریں زبان ہے یہ نارنگ کہ خطبات سن کر ہی یقین آیا کیوں کہ جس انداز میں وہ بولتے تھے وہ انداز کسی اور کے پاس نہیں تھا۔'


پروفیسر سراج اجملی نے کہاکہ "پروفیسر گوپی چند نارنگ کی طرح اردو دنیا میں کوئی موجود نہیں، انہوں نے اس مقام و مرتبے تک پہنچنے کے لیے حد درجہ جدوجہد کی۔ انہوں نے اپنا ایک ایک لمحہ ترتیب و تنظیم کے ساتھ صرف کیا جو نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی یہ ریاضت عین حیات رہی اس لیے ان کو رول ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔'

پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہاکہ گوپی چند نارنگ آسمان تھے اور ہم زمیں ہیں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو اس قابل بنایا کہ وہ ادبی منظرنامہ کو روشن کر سکیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے نامساعد حالات میں اپنی جدوجہد سے ایک مقام حاصل کیا جبکہ آج ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں، وہ اپنے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر حد درجہ شفقت کرتے تھے۔ '

پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ صرف اردو کی نہیں ہم اردو والوں کی بھی آبرو تھے کیونکہ پوری دنیا میں اردو اور اردو والوں کا بھرم ان کی وجہ سے قائم تھا، گوپی چند نارنگ جہاں ماہر لسانیات، محقق اور قلم کے دھنی تھے انہوں نے گوپی چند نارنگ کی مختلف کتابوں اور تحقیقات کے حوالے سے کہاکہ اردو ادب میں ہندستانیت اور ہندوستانی عناصر تلاش کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔'

پروفیسر ضغیر بیگ افراہیم نے کہاکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں جب پہلی بار انہوں نے میرا وائیوا لیا تب سے آج تک ہمیشہ ان کی عظمت میرے دل میں بڑھتی ہی گئی۔ آپ نے ستر سالہ علمی و عملی زندگی میں جو علمی و ادبی سرمایہ کی صورت میں حاصل کیا اسے کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک نظریہ ساز نقاد، محقق اور ماہر لسانیات تھے، انہوں نے ادب کے ہر شعبہ میں اپنے نقوش ثبت کیے ہیں۔ دہلی اردو اکیڈمی، قومی کونسل اور ساہتیہ اکیڈمی کا جو قد بڑھا ہے اس میں گوپی چند نارنگ کا اہم کردار ہے کیونکہ اپنی سربراہی کے زمانے میں ان اداروں کو ترقی دینے کے لیے وہ ہر وقت کوشاں رہے۔'

مزید پڑھیں:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.