ETV Bharat / state

AIMPLB on Gyanvapi Masjid Row: 'سروے رپورٹ کی بنیاد پر وضو خانہ بند کرنا سراسر نا انصافی'

سروے کے بعد گیان واپی مسجد کے وضو خانہ میں 'شیولنگ' کے دعوے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنا موقف سامنے رکھا۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ گیان واپسی مسجد، مسجد ہے اور رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ Supreme Court سے رجوع کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے۔

Muslim Personal Law Board on Gyanvapi Masjid Row
Muslim Personal Law Board on Gyanvapi Masjid Row
author img

By

Published : May 16, 2022, 9:33 PM IST

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد، مسجد ہے اور مسجد رہے گی، اس کو مندر قرار دینے کی کوشش فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہی۔ Statement of Muslim Personal Law Board at Gyan Vapi Mosque Row

انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے خلاف ہے۔ ۷۳۹۱ء میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں (Places of Worship Act 1991) پارلیمینٹ سے منظور ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۷۴۹۱ء میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔ 2019ء میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ما تحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ اور قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد پر ہندو فریق کے دعوے کو عدالت فورا (خارج) رد کردیتی، لیکن افسوس ہے کہ بنارس کے سول کورٹ نے اس مقام کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کر دیا، وقف بورڈ اس سلسلہ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے۔ Closing a part of Gyanvapi Mosque on the basis of survey report is injustice says AIMPLB

انہوں نے کہا کہ اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ Supreme Court سے رجوع کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کر دیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضو خانہ کے حصہ کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا، یہ کھلی ہوئی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے۔ AIMPLB Reacts over Gyanvapi Masjid Row

مزید پڑھیں:

الہ آباد ہائی کورٹ Allahabad High Court کے فیصلہ کا انتظار کرے اور ۱۹۹۱ء کے قانون کے مطابق تمام مذہبی مقامات کا تحفظ کرے، اگر ایسی خیالی دلیلوں کی بناء پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افرا تفری کا شکار ہوجائے گا، کیونکہ کتنے ہی بڑے بڑے مندر بودھ اور جینی عبادت گاہوں کو تبدیل کرکے بنائے گئے ہیں اور ان کی واضح علامتیں موجود ہیں، مسلمان اس ظلم کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ All India Muslim Personal Law Board ہر سطح پر اس نا انصافی کا مقابلہ کرے گا

(یو این آئی)

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد، مسجد ہے اور مسجد رہے گی، اس کو مندر قرار دینے کی کوشش فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہی۔ Statement of Muslim Personal Law Board at Gyan Vapi Mosque Row

انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے خلاف ہے۔ ۷۳۹۱ء میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں (Places of Worship Act 1991) پارلیمینٹ سے منظور ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۷۴۹۱ء میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔ 2019ء میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ما تحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ اور قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد پر ہندو فریق کے دعوے کو عدالت فورا (خارج) رد کردیتی، لیکن افسوس ہے کہ بنارس کے سول کورٹ نے اس مقام کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کر دیا، وقف بورڈ اس سلسلہ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے۔ Closing a part of Gyanvapi Mosque on the basis of survey report is injustice says AIMPLB

انہوں نے کہا کہ اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ Supreme Court سے رجوع کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کر دیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضو خانہ کے حصہ کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا، یہ کھلی ہوئی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے۔ AIMPLB Reacts over Gyanvapi Masjid Row

مزید پڑھیں:

الہ آباد ہائی کورٹ Allahabad High Court کے فیصلہ کا انتظار کرے اور ۱۹۹۱ء کے قانون کے مطابق تمام مذہبی مقامات کا تحفظ کرے، اگر ایسی خیالی دلیلوں کی بناء پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افرا تفری کا شکار ہوجائے گا، کیونکہ کتنے ہی بڑے بڑے مندر بودھ اور جینی عبادت گاہوں کو تبدیل کرکے بنائے گئے ہیں اور ان کی واضح علامتیں موجود ہیں، مسلمان اس ظلم کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ All India Muslim Personal Law Board ہر سطح پر اس نا انصافی کا مقابلہ کرے گا

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.