ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، این پی آر اور این آر سی کے خلاف 17 جنوری سے خواتین احتجاجی مظاہرے کررہی ہیں، لیکن آج تک حکومت کی جانب سے کوئی نمائندہ ان سے بات چیت کرنے نہیں آیا۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر مظاہرے جاری ہیں، لیکن بی جے پی حکومت آنکھ بند کیے ہوئے ہے، حکومت نہ تو مظاہرین سے بات کر رہی ہے اور نہ ہی قانون واپس لے رہی ہے۔
باوجود اس کے مظاہرین کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی، اس ضمن میں ان خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے مرکزی دارالحکومت دہلی کے مشہور شاعر اختر مرزا جو جسمانی طور پر معذور ہیں، ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پہنچے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران اختر مرزا نے کہا کہ اس قانون کے خلاف سب سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے انقلاب شروع ہوا، جو اب پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ لکھنؤ پہلے ہی آنا چاہتے تھے، لیکن وقت اجازت نہیں دے رہا تھا۔
اختر مرزا نے کہا کہ مجھے یہاں آ کر بڑی خوشی ہوئی کیونکہ شاہین باغ کا مظاہرے اور لکھنؤ کے مظاہرے میں محض تعداد کا فرق ہے، خواتین کے حوصلوں کا نہیں۔
اختر مرزا نے مظاہرین کا حوصلہ افزائی کے لیے کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ
بجھائی آگ جس نے جاکے گھر گھر
اسی کا گھر جلایا جا رہا ہے
نہ مجھے تیر سے تلوار سے ڈر لگتا ہے
لگتا ہے تو بدکار سے ڈر لگتا ہے
انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہماری پاک دامن ماں بہنیں پانچ سو روپے اور بریانی کے لیے مظاہرے پر آتی ہیں، لیکن یہ بالکل غلط ہے، ایسا بیان دینے اور سوچنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کچھ اس طرح سے جواب دیا کہ
ہمارے ہاتھ سے لے لے کے لقمے
ہمیں بھوکا سلایا جا رہا ہے
اختر مرزا نے کہا کہ میری مظاہرہ کررہی خواتین سے گزارش ہے کہ وہ اپنا حوصلہ مستحکم اور مضبوط رکھیں اور مسلسل احتجاج کرتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب حکومت ہماری بات مانے گی اور اس کالے قانون کو واپس لے گی۔