سرسید نے امن و خیر سگالی جو پیغام دیا اس سلسلے میں عوام میں بیداری پیدا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
وائس چانسلر نے کہا کہ سرسید اکیڈمی کی جانب سے جن چار کتابوں کا اجراء کیا گیا وہ سبھی بہت اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرسید اکیڈمی کی سبھی دستاویزوں کو ڈیجیٹائز کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ پروفیسر افتخار عالم نے یونیورسٹی سکول کی تاریخ لکھی ہے۔ منٹو سرکل نے ملک میں قابل فخر شخصیات پیدا کی ہیں اور اس اسکول کی زریں تاریخ ہے۔ ان کے تین بھائی بھی اسکول میں طالب علم رہے ہیں۔
سر سید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کے صدی سال پر ایک منصوبہ عمل ترتیب دیا گیا ہے، جس میں کئی کتابوں کی اشاعت بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سر سید ہاؤس کے گیٹ کی تعمیر کے لیےوائس چانسلر نے اپنی منظوری دے دی ہے۔ سرسید کے بے حد قریبی دوست کرنل جی ایف آئی گراہم نے ایک ان کی اولین سوانح لکھی تھی۔ 1885ء کے ان کی یہ تصنیف از سر نو شائع کی گئی ہے۔
پروفیسر افتخار عالم نے کہا کہ اس کتاب میں 1863 سے 1884 تک کی سرسید کی زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہے۔علی گڑھ کے ضلع روزگار افسر جناب ایس کے بھٹناگر کی انگریزی کتاب "ہسٹری آف ایم اے او کالج" کا ذکر کرتے ہوئے سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا کہ یہ کتاب 1969ء میں شائع ہوئی تھی۔
یہ دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ہے جسے اب دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے پروفیسر افتخار عالم کی کتابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی کے دیگر اسکولوں پر بھی کتابیں لکھی جائے، ساتھ ہی صدسالہ تاریخ پر بھی کام کیا جائے۔
پروگرام اے ایم یو انتظامیہ بلاک کے کانفرنس ہال میں ہوا جس کی نظامت ڈاکٹر حسین حیدر نے کی۔