ETV Bharat / bharat

مہاتما گاندھی کی برسی 2025: منڈیلا، ملالہ اور دیگر رہنما جنہوں نے اپنی روشنی پوری دنیا میں پھیلائی - MAHATMA GANDHI DEATH ANNIVERSARY

مہاتما گاندھی کے اصولوں نے دور دراز ممالک میں جڑیں پکڑیں، متاثر کن رہنما جو خود امید اور تبدیلی کی علامت بنیں گے۔

Etv Bharat
Etv Bharat (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 30, 2025, 5:13 PM IST

Updated : Jan 30, 2025, 5:25 PM IST

گاندھی کی وراثت کو بھارت کی سرحدوں میں محدود کرنا ان کے پیغام کی آفاقیت کو کم سمجھنے کے مترادف ہے۔ ان کا پیغام برصغیر سے بہت آگے تک پھیل چکا ہے، جس نے دنیا بھر میں بے شمار افراد اور تحریکوں کی زندگیوں کو چھو لیا۔ گاندھی کا ستیہ گرہ کا فلسفہ (سچائی پر ڈٹے رہنا اور عدم تشدد کے ذریعہ مزاحمت) ان لوگوں کے لیے ایک مینار بن گیا جو ظلم کے سامنے انصاف، مساوات اور آزادی کےلئے جدوجہد کررہے تھے۔

گاندھی کے عالمی اثرات کو سمجھنے کے لیے اس بات کا مشاہدہ کرنا ہے کہ کس طرح ان کے اصولوں نے دور دراز علاقوں میں تک رسائی حاصل کی اور تبدیلی کےلئے جدوجہد کرنے والے متعدد رہنماؤں کی علامت بن گئے۔ آج پورا ملک اس عظیم شخص کی برسی منارہا ہے۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت ایسے چار شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈال رہا ہے جنہوں نے گاندھی جی کی وراثت کو اپناتے ہوئے دنیا میں امن قائم کیا۔

1. مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، گاندھی جی کے نقش قدم پر چلے

20ویں صدی کے وسط میں، جب ریاست ہائے متحدہ نسلی تفریق کے گہرے زخموں سے دوچار تھا، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نامی ایک نوجوان بپٹسٹ وزیر نے خود کو ایک ایسے شخص کی تعلیمات کی طرف راغب پایا جس سے وہ کبھی نہیں ملا تھا لیکن ان کے پیغام کو اپنالیا تھا۔ انہوں ے سب سے پہلے اپنی تعلیم کے دوران گاندھی جی کے فلسفے سے واقفیت حاصل کی اور ان کی تعلیمات پر چلتے ہوئے اندھیرے میں روشنی جلانے کی کوشش کی۔

انہوں نے گاندھی کے ستیہ گرہ میں محبت کے مسیحی آئیڈیل کا عکس دیکھا۔ وہ محبت جو بدلہ لینے سے انکار کرتی ہے، وہ محبت جو ظالم کو سچائی کی طاقت سے بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کے نظریات کو اپناتے ہوئے اور عدم تشدد مزاحمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر کئی تحریکوں کی قیادت کی۔ انہیں گاندھی جی کی طرح فائرنگ میں قتل کیا گیا لیکن ان کا تمام نسلوں کےلئے برابری کا خواب زندہ رہا۔

2. نیلسن منڈیلا نے گاندھی کی تعلیمات سے آزادی حاصل کی

جنوبی افریقہ کی دھوپ میں جھلسی ہوئی سرزمین میں، ایک اور رہنما، گاندھی جی کی میراث سے تحریک حاصل کررہا تھا۔ نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے خلاف انقلاب کے امیر تھے، انہوں نے اپنے ابتدائی سالوں میں بطور وکیل اور سماجی کارکن پہلی بار گاندھی کے نظریات سے واقفیت حاصل کی۔ گاندھی جی نے بھی اپنا سفر جنوبی افریقہ میں ایک وکیل کے طور پر شروع کیا تھا، جہاں انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف لڑتے ہوئے عدم تشدد مزاحمت کا اپنا فلسفہ تیار کیا۔

منڈیلا نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے عزم کی تعریف کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’گاندھی جی میرے لیے ہمیشہ سے ایک عظیم ترغیب کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن میں جانتا تھا کہ ہماری جدوجہد کو ایک مختلف شکل اختیار کرنی ہوگی‘۔ اس کے باوجود اپنی 27 سالہ قید کے تاریک ترین دنوں میں بھی، منڈیلا نے کبھی گاندھی کے وژن کو نہیں بھولا۔ اپنی رہائی کے بعد، انہوں نے گاندھی کے اصولوں کی بازگشت کرتے ہوئے، سچائی اور معافی کے ذریعہ منقسم قوم کو ملانے کی کوشش کی۔ منڈیلا کی صدارت میں انصاف اور مساوات کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ دنیا نے منڈیلا میں، صرف ایک رہنما نہیں دیکھا، بلکہ نفرت اور تقسیم سے پاک دنیا کے گاندھی کے خواب کا ایک زندہ مجسمہ دیکھا۔

3. ملالہ یوسف زئی جدید دور کی گاندھیائی لڑکی۔

21ویں صدی میں، جب دنیا ظلم کی نئی شکلوں سے دوچار ہوئی تو پاکستان کی ایک نوجوان لڑکی گاندھی کی میراث کی غیر متوقع وارث بن کر ابھری۔ ملالہ یوسف زئی (لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر طالبان نے اسے گولی مار دی تھی) ہمت اور صنفی مساوات کی عالمی علامت بن گئی۔ گاندھی کی طرح ملالہ بھی زندگی اور معاشرہ کو بدلنے کے لیے تعلیم کی طاقت پر یقین رکھتی ہیں‘‘۔ ملالہ کے مطابق ایک طالب علم، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم، دنیا کو بدل سکتا ہے۔

تشدد اور دھمکیوں کے باوجود ملالہ نے بدلہ لینے سے گریز کیا اور اپنی آواز کو بلند کرنے پر محنت کی۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر اپنی توجہ مرکوز کی اور جدید ستیہ گرہ کا مظاہرہ کیا۔ ملالہ کا سفر (پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اقوام متحدہ کے ہال تک) یہ ظاہر کرتا ہے کہ گاندھی کی میراث ماضی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے جو ایک بہتر دنیا کا خواب دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

4. سیزر شاویز نے بھی امن کےلئے گاندھی کے عدم تشددد کے اوزاروں سے لڑا تھا۔

سیزر شاویز ایک میکسیکن امریکی مزدور رہنما تھے، جو کیلیفورنیا میں کسانوں کے حقوق کے لیے ایک چیمپئن بن کر ابھرے۔ ان میں سے بہت سے لوگ غربت اور استحصال کے حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ شاویز نے گاندھی کے فلسفے میں عدم تشدد کے ذریعہ مزاحمت کو سماجی تبدیلی کا ایک طاقتور ذریعہ بنایا۔ انہوں نے گاندھی کے اصولوں کا بغور مطالعہ کیا، کسانوں کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لیے بھوک ہڑتال، بائیکاٹ اور پرامن احتجاج جیسی حکمت عملیوں کو اپنایا۔ 1965 کی ڈیلانو انگور کی ہڑتال (جو پانچ سال تک جاری رہی، جس نے قوم توجہ حاصل کی) نے عدم تشدد کے رجحان کی عکاسی کی۔ سیزر کا ماننا تھا (جیسا کہ گاندھی نے کیا) کہ حقیقی طاقت نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں نہیں ہے بلکہ ایک منصفانہ مقصد کے لیے مصائب کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں ہے۔

شاویز کی 25 روزہ بھوک ہڑتال جو 1968 میں کی گئی گاندھی جی کے نظریات کی عکاس تھی۔

گاندھی کی وراثت کو بھارت کی سرحدوں میں محدود کرنا ان کے پیغام کی آفاقیت کو کم سمجھنے کے مترادف ہے۔ ان کا پیغام برصغیر سے بہت آگے تک پھیل چکا ہے، جس نے دنیا بھر میں بے شمار افراد اور تحریکوں کی زندگیوں کو چھو لیا۔ گاندھی کا ستیہ گرہ کا فلسفہ (سچائی پر ڈٹے رہنا اور عدم تشدد کے ذریعہ مزاحمت) ان لوگوں کے لیے ایک مینار بن گیا جو ظلم کے سامنے انصاف، مساوات اور آزادی کےلئے جدوجہد کررہے تھے۔

گاندھی کے عالمی اثرات کو سمجھنے کے لیے اس بات کا مشاہدہ کرنا ہے کہ کس طرح ان کے اصولوں نے دور دراز علاقوں میں تک رسائی حاصل کی اور تبدیلی کےلئے جدوجہد کرنے والے متعدد رہنماؤں کی علامت بن گئے۔ آج پورا ملک اس عظیم شخص کی برسی منارہا ہے۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت ایسے چار شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈال رہا ہے جنہوں نے گاندھی جی کی وراثت کو اپناتے ہوئے دنیا میں امن قائم کیا۔

1. مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، گاندھی جی کے نقش قدم پر چلے

20ویں صدی کے وسط میں، جب ریاست ہائے متحدہ نسلی تفریق کے گہرے زخموں سے دوچار تھا، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نامی ایک نوجوان بپٹسٹ وزیر نے خود کو ایک ایسے شخص کی تعلیمات کی طرف راغب پایا جس سے وہ کبھی نہیں ملا تھا لیکن ان کے پیغام کو اپنالیا تھا۔ انہوں ے سب سے پہلے اپنی تعلیم کے دوران گاندھی جی کے فلسفے سے واقفیت حاصل کی اور ان کی تعلیمات پر چلتے ہوئے اندھیرے میں روشنی جلانے کی کوشش کی۔

انہوں نے گاندھی کے ستیہ گرہ میں محبت کے مسیحی آئیڈیل کا عکس دیکھا۔ وہ محبت جو بدلہ لینے سے انکار کرتی ہے، وہ محبت جو ظالم کو سچائی کی طاقت سے بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کے نظریات کو اپناتے ہوئے اور عدم تشدد مزاحمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر کئی تحریکوں کی قیادت کی۔ انہیں گاندھی جی کی طرح فائرنگ میں قتل کیا گیا لیکن ان کا تمام نسلوں کےلئے برابری کا خواب زندہ رہا۔

2. نیلسن منڈیلا نے گاندھی کی تعلیمات سے آزادی حاصل کی

جنوبی افریقہ کی دھوپ میں جھلسی ہوئی سرزمین میں، ایک اور رہنما، گاندھی جی کی میراث سے تحریک حاصل کررہا تھا۔ نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے خلاف انقلاب کے امیر تھے، انہوں نے اپنے ابتدائی سالوں میں بطور وکیل اور سماجی کارکن پہلی بار گاندھی کے نظریات سے واقفیت حاصل کی۔ گاندھی جی نے بھی اپنا سفر جنوبی افریقہ میں ایک وکیل کے طور پر شروع کیا تھا، جہاں انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف لڑتے ہوئے عدم تشدد مزاحمت کا اپنا فلسفہ تیار کیا۔

منڈیلا نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے عزم کی تعریف کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’گاندھی جی میرے لیے ہمیشہ سے ایک عظیم ترغیب کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن میں جانتا تھا کہ ہماری جدوجہد کو ایک مختلف شکل اختیار کرنی ہوگی‘۔ اس کے باوجود اپنی 27 سالہ قید کے تاریک ترین دنوں میں بھی، منڈیلا نے کبھی گاندھی کے وژن کو نہیں بھولا۔ اپنی رہائی کے بعد، انہوں نے گاندھی کے اصولوں کی بازگشت کرتے ہوئے، سچائی اور معافی کے ذریعہ منقسم قوم کو ملانے کی کوشش کی۔ منڈیلا کی صدارت میں انصاف اور مساوات کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ دنیا نے منڈیلا میں، صرف ایک رہنما نہیں دیکھا، بلکہ نفرت اور تقسیم سے پاک دنیا کے گاندھی کے خواب کا ایک زندہ مجسمہ دیکھا۔

3. ملالہ یوسف زئی جدید دور کی گاندھیائی لڑکی۔

21ویں صدی میں، جب دنیا ظلم کی نئی شکلوں سے دوچار ہوئی تو پاکستان کی ایک نوجوان لڑکی گاندھی کی میراث کی غیر متوقع وارث بن کر ابھری۔ ملالہ یوسف زئی (لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر طالبان نے اسے گولی مار دی تھی) ہمت اور صنفی مساوات کی عالمی علامت بن گئی۔ گاندھی کی طرح ملالہ بھی زندگی اور معاشرہ کو بدلنے کے لیے تعلیم کی طاقت پر یقین رکھتی ہیں‘‘۔ ملالہ کے مطابق ایک طالب علم، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم، دنیا کو بدل سکتا ہے۔

تشدد اور دھمکیوں کے باوجود ملالہ نے بدلہ لینے سے گریز کیا اور اپنی آواز کو بلند کرنے پر محنت کی۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر اپنی توجہ مرکوز کی اور جدید ستیہ گرہ کا مظاہرہ کیا۔ ملالہ کا سفر (پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اقوام متحدہ کے ہال تک) یہ ظاہر کرتا ہے کہ گاندھی کی میراث ماضی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے جو ایک بہتر دنیا کا خواب دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

4. سیزر شاویز نے بھی امن کےلئے گاندھی کے عدم تشددد کے اوزاروں سے لڑا تھا۔

سیزر شاویز ایک میکسیکن امریکی مزدور رہنما تھے، جو کیلیفورنیا میں کسانوں کے حقوق کے لیے ایک چیمپئن بن کر ابھرے۔ ان میں سے بہت سے لوگ غربت اور استحصال کے حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ شاویز نے گاندھی کے فلسفے میں عدم تشدد کے ذریعہ مزاحمت کو سماجی تبدیلی کا ایک طاقتور ذریعہ بنایا۔ انہوں نے گاندھی کے اصولوں کا بغور مطالعہ کیا، کسانوں کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لیے بھوک ہڑتال، بائیکاٹ اور پرامن احتجاج جیسی حکمت عملیوں کو اپنایا۔ 1965 کی ڈیلانو انگور کی ہڑتال (جو پانچ سال تک جاری رہی، جس نے قوم توجہ حاصل کی) نے عدم تشدد کے رجحان کی عکاسی کی۔ سیزر کا ماننا تھا (جیسا کہ گاندھی نے کیا) کہ حقیقی طاقت نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں نہیں ہے بلکہ ایک منصفانہ مقصد کے لیے مصائب کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں ہے۔

شاویز کی 25 روزہ بھوک ہڑتال جو 1968 میں کی گئی گاندھی جی کے نظریات کی عکاس تھی۔

Last Updated : Jan 30, 2025, 5:25 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.