گیانواپی مسجد اور متھرا عیدگاہ مسجد کے علاوہ ملک بھر میں مندر اور مسجد کے تنازعات کو لے کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور بی جے پی پورے آمنے سامنے ہیں۔ بی جے پی نے پرسنل لا بورڈ پر ملک میں شریعت کے نفاذ کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں تنازع مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ BJP Targets Muslim Personal Law Board
حال ہی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھارتی عدالتوں سے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اب بی جے پی اسے ایشو بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان ہیرو واجپائی کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو اب بھارت کے آئین اور آئین کی بنائی ہوئی عدالتوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ بنیاد پرست مولانا ملک میں شرعی عدالت چاہتے ہیں لیکن ان کے منصوبے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر معین احمد خان نے بورڈ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ثقافتی قوم پرستی کے نام پر 50,000 مساجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کرنے کی حکمت عملی ہے۔ تاریخ کو ایک چشمہ سے دیکھنے کی سیاست بند ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان سب پر سیاست نہ کر کے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو مندر مسجد کی سیاست کا خیال اپنے ذہن سے نکالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ متنازع مسائل کو سنسنی خیزی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت آگے آئے اور ثالثی کرے۔ پارلیمنٹ میں منظور شدہ قانون کے تحت مساجد کا مسئلہ ریاستوں کے مسلم وقف بورڈ اور مندر کے دعویداروں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ تاج محل، قطب مینار قومی ورثہ ہیں، یہ مسلمانوں کی املاک نہیں ہیں۔ بھارت کا ورثہ ہونے کی وجہ سے یہ محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔
وہیں شری کاشی وشواناتھ نیاس پریشد کے صدر پروفیسر ناگیندر پانڈے نے دعویٰ کیا کہ گیانواپی کے وضو خانہ میں جو پتھر ملا ہے وہ شیولنگ ہے۔ انہوں نے یہاں پوجا کرنے کا حق مانگا ہے۔ انہوں نے اس کے پیچھے کلاسیکی قانون سازی کی منطق پیش کی ہے۔ ساتھ ہی کاشی وشوناتھ نیاس ٹرسٹ کے کردار کو اہم سمجھتے ہوئے انہوں نے ذاتی طور پر اس معاملے میں عدالت میں جانے اور اس پورے معاملے میں فریق بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔