مدھر نے بنارس کے علاقے غوری گنج میں رہائش اختیار کرلی اور بنارس ہندو یونیورسٹی میں فائن آرٹس کے استاد مقرر ہوئے، ساتھ ہی بنارس ہندو یونیورسٹی سے اردو فارسی میں ڈپلومہ بھی کیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ اردو کے شاعر تھے تو غلط نہ ہوگا،شاعری میں یہ ڈاکٹر علیم مسرور ؔ مصنف ناول 'بہت دیر کردی' کے شاگرد تھے۔ اردو میں بہت اچھے اشعار کہا کرتے تھے۔ان کا ایک ہندی شعری مجموعہ 'سوچ' کے نام سے اور 'اور بھی غم ہیں' اردو مجموعہ ان کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ کملا مدھر نے شائع کرایا۔
ڈاکٹر علیم مسرور ؔ کے مطب میں بلا ناغہ رات میں کچھ ادیب و شاعر بیٹھا کرتے تھے ان میں مدھر جی سب سے فعال تھے۔ہندوسناتن دھرم میں پختگی کے با وجود یہ مسلمانوں سے بہت قربت رکھتے تھے، یہ ہر سال اپنی رہائش گاہ پر دوشعری نشست بڑے پیمانے پر کیا کرتے تھے جس میں ہندی کے شاعر گنڑ اور اردو کے شعرا شامل ہوا کرتے تھے۔
اردو شعرا میں حفیظ بنارسی،راشد بنارسی، ڈاکٹر ناظم جعفری،شورش بنارسی، ریاض بنارسی، اتفاق ہے کہ اردو کے وہ تمام شعرا جو شامل ہوا کرتے ان میں ایک بھی زندہ نہیں خود مدھر جی کے ساتھ سب ہی فوت ہو چکے ہیں۔
ہندی شاعروں میں بھاردواج جی،سرسوتی سرن کیف،کمل گپت جی کے علاوہ بڑے بڑے لوگ ہوا کرتے تھے۔ان دنوں سرسوتی سرن کیف بنارس ہی میں رہتے تھے جو پابندی سے اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔
سرسوتی سرن کیف پوائینیر انگریزی اخبار کے سابق ایڈیٹر تھے اور اردو فارسی کے شعر کہتے تھے۔مدھر جی کھلانے پلانے کے بھی بڑے شوقین تھے،ان دونوں پروگراموں میں وہ کھانے کا بہت ہی شاندار اہتمام کیا کرتے۔
اس سلسلے میں ان کے دوست وسیم حیدر ہاشمی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ مدھر جی کی شخصیت کا خاصہ یہ تھا کہ وہ اردو ہندی کی قربت کے حامی تھے۔ وہ اردو ہندی پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ وہ اردو کے شاعر ہیں یا ہندی کے۔
ان کی اہلیہ نے اس تعلق سے بتایا کہ مدھر جی کے انتقال کے بعد ان کی کتاب انھوں نے شائع کی۔مگر وہ ان کے بنائے ہوئے سرکل کو باقی نہ رکھ سکیں۔ اور لوگ ان کو بھولے تو نہیں ہیں لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کے ان کے جیسا پروگرام منعقد نہیں کرنا چاہتا انھوں نے ہمیشہ اردو ہندی کو ملانے کی کوشش کی تھی۔