اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع میں ریاستی تحفظ برائے اطفال آبزرویشن ہوم میں گزشتہ تین سالوں سے نوکری کر رہی نرس کے پاس نہ ڈگری ہے اور نہ ڈپلومہ کورس کی جانکاری، اس کے باوجود وہ نوکری کررہی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ نرس دوائیوں کے نام تک نہیں پڑھ پاتی۔ جبکہ آبزرویشن ہوم میں رہ رہی لڑکیوں کے بیمار ہو جانے پر یہی نرس انہیں دوائیاں دیتی ہیں۔ یہ خلاصہ جمعہ کو اس وقت ہوا جب ریاستی کمیشن کے ممبر ڈاکٹر شوچیتا چترویدی نے آبزرویشن ہوم کا معائنہ کرنے پہنچی تھیں۔
انہوں نے اس پورے معاملے کی رپورٹ کمیشن کے صدر اور وزیراعلی کے سامنے رکھنے کی بات کہی ہے۔
سرکار کی طرف سے چلائے جارہے منصوبوں کا فائدہ لوگوں کو مل رہا ہے یا نہیں اس بارے میں سچائی جاننے کے لئے ریاستی حقوق برائے بچے کی رکن ڈاکٹر شوچیتا چترویدی بارہ بنکی پہنچی تھیں۔ انہوں نے سب سے پہلے خاتون ہسپتال کے پیکو وارڈ کو دیکھا، جہاں کووڈ کی تیسری لہر کے مدنظر 40 بیڈز تیار کیے گئے ہیں۔ یہاں ابھی زیادہ کام باقی ہے، جسے جلد پورا کرنے کی ہدایت دی گئی۔
اس کے بعد ڈاکٹر شوچیتا چترویدی ‘ون اسٹاپ سینٹر’ پہنچی، جہاں کی رپورٹنگ چوکی دیکھ کر حیران ہوگئی۔ در اصل یہاں چار خاتون کانسٹیبل کی ڈیوٹی ہے۔ لیکن محض ایک ہی موجود ملی۔ اس پر انہوں نے فون سے غیر حاضری کی جانکاری لی۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے تین حاملہ ہیں اور ان چاروں کی سیٹنگ ہے۔ کوئی ایک کانسٹیبل آ جاتی ہیں جو باقی تینوں کی حاضری بنا دیتی ہے۔ اس پر ڈاکٹر شوچیتا چترویدی نے برہمی کا اظہار کیا۔
اس کے بعد وہ مواصلاتی ہوم پہنچی، یہاں بھرتی بکرو معاملے کے نامزد امر دوبے کی اہلیہ کی بابت جانکاری لی، اس کے بعد انہوں نے نرس سے جب پوچھ گچھ کی تو ان کے ہوش فاختہ ہوگئے، نرس نہ کاغذات پڑھ پائی اور نہ ہی دوائیوں کے بارے میں کچھ جانکاری تھیں۔ کون سی دوائی کب دی جانی ہے جب نرس نے بتائی تو وہاں موجود ایڈیشنل سی ایم او بھی حیران رہ گئے۔
اس بارے میں ڈاکٹر شوچیتا چترویدی نے بتایا کہ محض انٹر پاس یہ نرس نہ جانے کیسے نوکری پا گئی۔ گزشتہ تین سالوں سے یہاں نوکری کر رہی نرس کے پاس کوئی نرسنگ کا کورس بھی نہیں ہے۔ نہ دوائی پڑھ پاتی ہے اور نہ ہی اسے کچھ جانکاری ہے۔ اس بارے میں رپورٹ کمیشن اور سی ایم کو بھیجیں گے۔