الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں 2011 کے بعد تعمیر کردہ غیر قانونی مذہبی مقامات کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔ اور 2011 سے پہلے کے تعمیرات کو منتظمین کسی دوسری جگہ پر منتقل کر کے تعمیر کرائے۔ اس کے بعد سے ہی انتظامیہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارہ بنکی ضلع انتظامیہ نے تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجد کو دو شنبہ کی دیر رات منہدم کر دیا گیا اور اس کا ملبہ مختلف دریاؤں میں بہا دیا گیا تھا۔
وقف بورڈ کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ جئے دیپ ماتھر نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ سو سالہ قدیم مسجد ہے۔ اور آج بھی سرکاری ریکارڈ میں زمین درج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ڈی ایم نے دفعہ 133 کے تحت کاروائی کرتے ہوئے مسجد منہدم کروا دیا تھا۔ جو کہ پوری طرح غلط ہے۔
وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے ایڈوکیٹ یوسف مچھالا نے بحث کی۔ جس پر جسٹس راجن راۓ اور جسٹس لوانیہ نے دونوں کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ بارہ بنکی مسجد انتظامیہ کے حشمت علی و نعیم احمد اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے غریب نواز مسجد منہدم معاملے میں رٹ پٹیشن الہ آباد ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ سعود رئیس کے ذریعے داخل کی ہے۔ اس پٹیشن پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے لیگل کمیٹی کے چیئرمین یوسف بحث کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی پٹیشن ایڈووکیٹ سید آفتاب احمد کے ذریعے داخل کی گئی ہے۔ جس پر سینئر ایڈووکیٹ جئے دیپ ماتھر نے بحث کی۔ ان دنوں پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مقامی افسران کے ذریعے انہدام کی کاروائی مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔