ETV Bharat / state

بابری مسجد کیس، کورٹ میں سماعت جاری

author img

By

Published : Sep 4, 2019, 8:21 AM IST

Updated : Sep 29, 2019, 9:26 AM IST

سپریم کورٹ میں بابری مسجد رام مندر اراضی تنازع کیس کی سماعت جاری ہے، اس سلسلے میں مسلم فریق کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنے دلائل پیش کیے۔

بابری مسجد کیس، کورٹ میں سنوائی جاری

مسلم فریقوں (مسلم پرسنل لا بورڈ و جمیعت علماء) کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی کل کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہندو مہا سبھا کے دعووں کو رد کرتے ہوئے اپنی دلیلیں پیش کی۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے اس دعوے کو چیلنچ کیا جسے ہندو فریق نے اپنی بحث کے دوران رکھا تھا کہ ' مغلوں کے بعد انگریزوں نے ہمارے قانوں( ہندو قانون) کو کالعدم کرکے اپنا قانوں نافذ کردیا اور اب جب کہ ملک آ زاد ہوگیا ہے تو اب ہندو قانون ہی ہم پر نافذ ہوگا۔'

ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ' اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر پارلیمنٹ نے 1991 میں عبادت گاہوں سے متعلق جو قانون بنایا ہے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زمین بھگوان ہے دلیل مان لی جائے تب بھی اس کی ضرب مذکورہ بالا قانون پر پڑتی ہے۔'

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے نرموہی اکھاڑہ( سوٹ نمبر 3)اور رام للا براجمان ( سوٹ نمبر 4) کے آپسی اختلافات پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ' نرموہی اکھاڑے نے پلینٹف ایک اور دو کے ذریعہ داخل کی گئی سوٹ کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

اپنے دلائل میں انھوں نے کہا کہ رام جنم استھان کا بھگوان کے طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دیو کی نندن اگروال کا کوئی ادھیکار ہی نہیں تھا کہ وہ رام للا براجمان کی طرف سے مقدمہ دائر کرتے۔

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ سنہ 1885 میں نرموہی اکھاڑے کی طرف سے مہنت رگھوبر داس نے جو مقدمہ دائر کیا ہے اس سے نرموہی اکھاڑہ انکار کرتا ہے کہ وہ ہمارا کیس نہیں تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ میں ان کے ایک گواہ مہنت بھاسکر داس نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ہمارا ہی مہنت تھا البتہ انہو ں نے یہ مقدمہ ذاتی حیثیت میں داخل کیا تھا۔

نرموہی اکھاڑے نے اپنے جواب دعوی میں کہا ہے کہ رام للا کا جو تصور ہے وہ بے معنی ہے اور رام جنم بھومی کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں ہے اور نرموہی اکھاڑے کے علاوہ مندر بنانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے اور سوٹ نمبر 5 صرف ہمارے انتظامی حقوق کو ختم کرنے کے لئے لایا گیا لہذا وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ لہِذا اسے خارج کیا جائے۔

مزید پڑھیں : : ایودھیا کیس: مسلم فریق کی طرف سے بحث کا آغاز

ڈاکٹر دھون کے مطابق نرموہی اکھاڑے کی اپیل میں ان کا دعوی باہری حصے پر ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے کیس میں باہری حصہ کی کوئی مانگ ہی نہیں کی ہے۔

ان کا مطالبہ انتظامی حقوق کا ہے اور چونکہ انہوں نے باہری صحن مانگا ہی نہیں تھا لہذا الہ آباد ہائی کورٹ نے باہری حصہ دے کر غلط کیا ہے۔

اسی طرح انھوں نے کیس نمبر 3 کو رد کیا۔ انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں جو دلیل پیش کی اس میں بھی صرف چبوترے ہی کا ذکر ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے 1990 میں لیے گئے کچھ تصاویر کورٹ کے ریکارڈ سے پیش کیے اور کہا کہ اس میں صاف دکھائی دے رہا ہے ایک گنبد کے نیچے دو فوٹوگراف نصب کیے گئے ہیں۔

جس میں سے ایک اس وقت کے ڈی ایم کے کے نائر کی ہے اور دوسری سٹی مجسٹریٹ گُرو دت سنگھ کی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ان شرپسندوں سے ملے ہوئے تھے اور ان کی ملی بھگت سے ہی مسجد کا تالہ توڑ کر مورتیان رکھی گئی تھیں۔

مندر میں ان دو حضرات کی تصاویر کی موجودگی یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ان کی بھی پوجا ہورہی تھی لہذا اس سے نام نہاد مندر کا تقدس تو پامال ہی ہوجاتا ہے۔ کل بھی ڈاکٹر دھون کی بحث جاری رہے گی۔

آج کورٹ میں ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے۔

اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔.

مسلم فریقوں (مسلم پرسنل لا بورڈ و جمیعت علماء) کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی کل کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہندو مہا سبھا کے دعووں کو رد کرتے ہوئے اپنی دلیلیں پیش کی۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے اس دعوے کو چیلنچ کیا جسے ہندو فریق نے اپنی بحث کے دوران رکھا تھا کہ ' مغلوں کے بعد انگریزوں نے ہمارے قانوں( ہندو قانون) کو کالعدم کرکے اپنا قانوں نافذ کردیا اور اب جب کہ ملک آ زاد ہوگیا ہے تو اب ہندو قانون ہی ہم پر نافذ ہوگا۔'

ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ' اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر پارلیمنٹ نے 1991 میں عبادت گاہوں سے متعلق جو قانون بنایا ہے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زمین بھگوان ہے دلیل مان لی جائے تب بھی اس کی ضرب مذکورہ بالا قانون پر پڑتی ہے۔'

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے نرموہی اکھاڑہ( سوٹ نمبر 3)اور رام للا براجمان ( سوٹ نمبر 4) کے آپسی اختلافات پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ' نرموہی اکھاڑے نے پلینٹف ایک اور دو کے ذریعہ داخل کی گئی سوٹ کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

اپنے دلائل میں انھوں نے کہا کہ رام جنم استھان کا بھگوان کے طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دیو کی نندن اگروال کا کوئی ادھیکار ہی نہیں تھا کہ وہ رام للا براجمان کی طرف سے مقدمہ دائر کرتے۔

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ سنہ 1885 میں نرموہی اکھاڑے کی طرف سے مہنت رگھوبر داس نے جو مقدمہ دائر کیا ہے اس سے نرموہی اکھاڑہ انکار کرتا ہے کہ وہ ہمارا کیس نہیں تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ میں ان کے ایک گواہ مہنت بھاسکر داس نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ہمارا ہی مہنت تھا البتہ انہو ں نے یہ مقدمہ ذاتی حیثیت میں داخل کیا تھا۔

نرموہی اکھاڑے نے اپنے جواب دعوی میں کہا ہے کہ رام للا کا جو تصور ہے وہ بے معنی ہے اور رام جنم بھومی کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں ہے اور نرموہی اکھاڑے کے علاوہ مندر بنانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے اور سوٹ نمبر 5 صرف ہمارے انتظامی حقوق کو ختم کرنے کے لئے لایا گیا لہذا وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ لہِذا اسے خارج کیا جائے۔

مزید پڑھیں : : ایودھیا کیس: مسلم فریق کی طرف سے بحث کا آغاز

ڈاکٹر دھون کے مطابق نرموہی اکھاڑے کی اپیل میں ان کا دعوی باہری حصے پر ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے کیس میں باہری حصہ کی کوئی مانگ ہی نہیں کی ہے۔

ان کا مطالبہ انتظامی حقوق کا ہے اور چونکہ انہوں نے باہری صحن مانگا ہی نہیں تھا لہذا الہ آباد ہائی کورٹ نے باہری حصہ دے کر غلط کیا ہے۔

اسی طرح انھوں نے کیس نمبر 3 کو رد کیا۔ انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں جو دلیل پیش کی اس میں بھی صرف چبوترے ہی کا ذکر ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے 1990 میں لیے گئے کچھ تصاویر کورٹ کے ریکارڈ سے پیش کیے اور کہا کہ اس میں صاف دکھائی دے رہا ہے ایک گنبد کے نیچے دو فوٹوگراف نصب کیے گئے ہیں۔

جس میں سے ایک اس وقت کے ڈی ایم کے کے نائر کی ہے اور دوسری سٹی مجسٹریٹ گُرو دت سنگھ کی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ان شرپسندوں سے ملے ہوئے تھے اور ان کی ملی بھگت سے ہی مسجد کا تالہ توڑ کر مورتیان رکھی گئی تھیں۔

مندر میں ان دو حضرات کی تصاویر کی موجودگی یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ان کی بھی پوجا ہورہی تھی لہذا اس سے نام نہاد مندر کا تقدس تو پامال ہی ہوجاتا ہے۔ کل بھی ڈاکٹر دھون کی بحث جاری رہے گی۔

آج کورٹ میں ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے۔

اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔.

Intro:Body:

new


Conclusion:
Last Updated : Sep 29, 2019, 9:26 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.