نئی دہلی: بابری مسجد شہادت کی برسی کے موقع پر آج دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں حفاظتی انتظامات سخت Babri Masjid 29th Demolition کردیے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں ہر چھوٹی بڑی سرگرمیوں پر خفیہ طور پر نظر رکھ جارہی ہے۔
پولیس انتظامیہ کی جانب سے اوکھلا کے مسلم اکثریتی علاقہ بٹلہ ہاؤس، غفار منزل، اوکھلا وہار، ابوالفضل، شاہین باغ کے ہر چوراہے پر پولیس فورس کے جوان تعینات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ آج ہی کے دن 1992 میں اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں نے منہدم کر دیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 میں بابری مسجد کے حوالے سے سماعت کرتے ہوئے 1949 میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی فعل قرار دیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا لیکن حتمی فیصلے میں کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
- مزید پڑھیں:History Of Babri Masjid: بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں
- Prof Ali Nadeem Rizvi on Babri Masjid Demolition: بابری مسجد کی برسی پر پروفیسر علی ندیم رضوی کا اظہار خیال
ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن نے بھی مسجد میں 1949 میں مورتیاں رکھنے اور 1992 میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی کی 'رتھ یاترا کو بھی مسجد کے انہدام کے لیے ذمہ دار قرار دیا تھا۔
ایودھیا میں 1992 میں مسجد منہدم Demolition of the historic Babri Masjid in Ayodhya ہونے کے بعد ملک بھر میں تشدد برپا ہوگیا تھا۔ ممبئی میں بڑے پیمانے پر فساد ہوئے تھے، جس کے بعد دونوں فسادات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے سِٹنگ جج جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں ایک کمیشن کو تشکیل دیا جس نے پانچ سال بعد ایک منصفانہ رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن کی سفارشات کے باوجود بھی قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔