بابری مسجد-ایودھیا تنازع کیس کے ایڈیشنل و سیشن جج سریندر کمار یادو مئی 2017 سے اس معاملے کی سماعت کررہے ہیں۔
ایودھیا میں 6 دسمبر سنہ 1992 کو شر پسندوں نے بابری مسجد کو یہ کہہ کر شہید کردیا تھا کہ یہاں پہلے رام مندر تھا اور مندر توڑ کر یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد شہید کرنے کے معاملے میں اس وقت بی جے پی کے قد آور رہنما سمیت کئی بڑی شخصیات پر کیس درج کیا گیا تھا۔
بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار سمیت کئی لوگوں پر مسجد شہید کرنے کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اس معاملے میں 32 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔
اب جانیے کہ مسجد کی شہادت کے بعد اس کیس کی کیا پیش رفت رہی۔
دسمبر 1992
ایودھیا میں بابری مسجد کو ہزاروں لوگوں نے گھیر کر شہید کردیا۔
دسمبر 1993
بابری مسجد شہید کرنے کے معاملے میں پہلے دو کیس درج کیے گئے، پہلا کیس کار سیوکوں کی بھیڑ اکٹھا کرنے کے خلاف درج کیا گیا اور دوسرا کیس بی جے پی کے سینیئر رہنما ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت دیگر بڑے رہنماؤں کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے سے متعلق تقریر کرنے کا کیس درج کیا گیا۔
مئی 2001
سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، بال ٹھاکرے سمیت دیگر کئی رہنماؤں کے خلاف جاری سماعت پر روک لگادی۔
نومبر 2004
سی بی آئی نے تکنیکی بنیاد پر بی جے پی رہنماؤں کے خلاف چل رہے کیس کی سماعت بند کرنے کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کو چیلینج کیا۔
جون 2009
بابری مسجد شہادت کیس میں لبراہن کمیٹی نے 17 سال کی جانچ کے بعد اپنی رپورٹ سونپی، اس رپورٹ میں 68 لوگوں کو بابری مسجد شہید کرنے کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا جن میں سے زیادہ تر بی جے پی رہنما تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق بابری مسجد شہید کرنا غیر قانونی تھا اور اسے منصوبہ بند طریقے سے شہید کیا گیا تھا۔
ستمبر 2010
الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمنی عدالت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں یہ کیا گیا تھا کہ دونوں معاملے دو الگ الگ ایف آئی آر کے تحت درج کیے گئے ہیں اسی لیے ان کی سماعت بھی الگ الگ ہونی چاہیے۔
مارچ 2012
سی بی آئی نے سبھی معاملوں میں ایک ہی کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا۔
اپریل 2017
سپریم کورٹ نے ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے خلاف مسجد شہید کرنے کی سازش کرنے کا کیس دوبارہ بنایا اور اس معاملے کو کارسیوکوں کے کیس کے ساتھ ملادیا گیا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کی روز سماعت کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملے کی سماعت کررہے جج کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا۔
ستمبر 2020
لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے آج یعنی 30 ستمبر کو اپنا فیصلہ سنایا۔
جانیے مسجد شہید کیے جانے سے قبل کب اور کیا ہوا؟
سنہ 1528
مغل شہنشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔
سنہ 1885
مہنت رگھوبیر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں عرضی داخل کرکے بابری مسجد-رام مندر متنازعہ ڈھانچے کے باہر شامیانہ لگانے کی اجازت مانگی جسے عدالت نے خارج کردیا۔
سنہ 1949
متنازعہ ڈھانچے کے باہر اور مرکزی گنبد کے اندر رام للا کی مورتیاں رکھی گئیں۔
سنہ 1950
رام للا کی مورتیوں کی پوجا کے اختیارات حاصل کرنے کے لیے گوپال سملا وشارد نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں عرضی داخل کی۔
سنہ 1950
پرمہنس رام چندر داس نے پوجا جاری رکھنے اور مورتیاں رکھنے کے لیے عرضی داخل کی۔
سنہ 1959
نرموہی اکھاڑا نے زمین پر اپنے اختیارات حاصل کرنے کے لیے عرضی داخل کی۔
سنہ 1981
اترپردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے متنازعہ اراضی پر اپنے حق کا دعوی کرتے ہوئے عرضی داخل کی۔
ایک فروری 1986
مقامی عدالت نے حکومت حکم دیا کہ وہ ہندو عقیدت مندوں کے لیے متنازعہ جگہ کھول دے۔
14 اگست 1986
الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ اراضی کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
چھ دسمبر 1992
شر پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا۔