علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں بے شمار تاریخی عمارات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک وکٹوریہ گیت بھی ہے جو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے تینوں دروازوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت اور تاریخی اہمیت کا حامل جو دروازہ ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود تمام تاریخی اور خوبصورت عمارات میں سے موجودہ وکٹوریہ گیٹ اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکا ہے کہ مختلف کتابوں، کلینڈروں پر محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی علامت کے طور پر وکٹوریہ گیٹ کو سرِورق پر شائع کیا جاتا ہے جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بھی ایک طرح سے علامت بن گئی ہے۔
وکٹوریہ گیٹ بلاشبہ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے تمام دروازوں میں سے شاندار اور خوبصورت دروازہ ہے یہ پرکشش عمارت ایم اے او کالج کا مرکزی دروازہ تھا اس دلکش کیٹ کا پورا ڈھانچہ بہت متاثر کن ہے۔
سر سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ وکٹوریا گیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اگر آپ اس کو دیکھیں گے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کی تعمیر ایک ساتھ ایک وقت میں کی گئی ہے جبکہ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا اس کی تعمیر ایک ساتھ نہیں ہوئی بلکہ تین مختلف وقت میں اس کی تعمیری کام مکمل ہوئی۔
ایم اے او کالج کا مرکزی دروازہ، وکٹوریہ گیٹ (گراؤنڈ فلور) 1885 میں سرسید احمد خان کی براہ راست نگرانی اور ذاتی نگہداشت اور ہدایات کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔
حصہ دوم : سمیع منزل
29 جون 1913 کو ہونے والے کالج سنڈیکیٹ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مولوی سمیع اللہ خان کے اعزاز میں ایک یادگار تعمیر کی جائے، جو سر سید کے قریبی دوست اور ساتھی تھے (بعد میں اپنے سخت مخالف اور نقاد بن گئے) وکٹوریہ گیٹ کی پہلی منزل کی تعمیر کا پیسہ ان کے بیٹے مولوی محمد حمید اللہ خان نے عطیہ کیا۔ سمیع منزل 1920 تک مکمل ہو سکتی تھی جیسا کہ پہلی منزل پر اوپر کی طرف ایک پتھر سے واضح ہے۔
حصہ تین: کلاک ٹاور
تھیوڈور بیک (پرنسپل ایم اے او کالج) 1 فروری سنہ 1884 سے 2 ستمبر سنہ 1899 تک رہے۔ ان کے والد جوسف بیک سنہ 1892 میں ایم اے او کالج تشریف لائے اور انگلینڈ سے واپسی پر انہوں نے ایک تحفہ بھیجا۔
- مزید پڑھیں: علیگڑھ: ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی تعداد 150 سے بڑھ کر 200 ہونے کا امکان
- اے ایم یو: آر سی اے کے تین طلبہ نے سول سروس امتحان میں کامیابی حاصل کی
- راجہ مہندر پرتاب نے اے ایم یو کو زمین لیز پر دی نہ کہ عطیہ کیا تھا: پروفیسر سید ندیم
- 'راجہ مہندر پرتاپ نے اپنے مسلم ساتھیوں کے ساتھ افغانستان میں حکومت بنائی تھی'
سر سید احمد خان چاہتے تھے جوسف بیک کی یاد میں ایک کلاک ٹاور کالج میں کسی مناسب جگہ پر بنایا جائے، لیکن کلاک ٹاور کی جگہ کا فیصلہ تیس سال تک نہ ہو سکا اور کلاک ٹاور کی تعمیر تاخیر سے جاری رہی، بالآخر 30 مئی سنہ 1920 کو کالج کی سنڈیکیٹ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کلاک ٹاور کو وکٹویی گیٹ کے اوپری منظر پر تعمیر کیا جائے۔ اس طرح کلاک ٹاور کی تعمیر اکتوبر 1922 تک مکمل ہوئی۔