مولانا اصغر حسین نے بتایا کہ حضرت امام حسینؓ نے کہا تھا کہ ’میں حکومت کی طلب میں نہیں نکلا ہوں بلکہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں‘۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے آج بھی ساری دنیا میں تقریبا 1400 برس بعد بھی واقعہ کربلا کا تذکرہ بڑے غمگین انداز میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چہلم کی تاریخ انتہائی غمگین ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد 11 محرم کو ان کے اہل خانہ کو شام لے جایا گیا جہاں پر یزید کی حکومت تھی۔
محمد زاہد حسین نے بتایا کہ چہلم کا حقیقی پیغام یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حق کی آواز کو دبایا جاتا ہے تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔
ڈاکٹر ایس جے جعفری نے بتایا حضرت امام حسینؓ نے جو قربانی دی اسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اس کے پیام کو ساری دنیا میں پہنچانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سچائی پر چلنے والی قوم ہے۔
نادر عباس نے کہا کہ ان لاک 5 کے مطابق آج صرف 80 افراد کی موجودگی میں مجلس کا انعقاد عمل میں لایا گیا جو صبح 9 بجے سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجلس میں شامل ہر شخص نے ماسک کا استعمال کیا، مجلس کے مقام کو سنیٹائز کیا گیا اور یہاں سماجی فاصلہ کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔