ETV Bharat / state

مجاز کا لکھا ہوا ترانہ اے ایم یو کی شان اور پہچان ہے

موسیقار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے جانی فوسٹر نے مجاز کی برسی پر کہا کہ مجاز کا لکھا ہوا ترانہ اے ایم یو کی شان اور پہچان ہے۔ مجاز کا لکھا ہوا اے ایم یو کا ترانہ سال کے 365 دن ہمارے سینوں میں دھڑکتا رہتا ہے۔ جانی فوسٹر سے مجاز کی برسی پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو Anthem written by Majaz is the glory and identity of AMU

Anthem written by Majaz is the glory and identity of AMU
Anthem written by Majaz is the glory and identity of AMU
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 5, 2023, 4:37 PM IST

جانی فوسٹر سے مجاز کی برسی پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

علی گڑھ: عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا ترانہ اردو کے شاعر اور اے ایم یو کے سابق طالب علم اسرار الحق مجاز نے 1933 میں لکھا۔ اسرار الحق کو مجاز لکھنوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ کی پیدائش 19 اکتوبر 1911 کو ہوئی اور آپ کی وفات آج کے ہی دن 5 دسمبر 1955 میں لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقریبا سبھی پروگرام کے آخر میں اے ایم یو ترانہ بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔ اے ایم یو کی ایک ترانہ ٹیم بھی ہے، جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی موجود ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Sir Syed Day مجاز کا ترانہ، جشن یوم سرسید کی شان ہے


اے ایم یو ترانہ:
"یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سر شاہِ نگاہِ نرگس ہوں پابستۂ گیسوئے سمبل ہوں"

اسرار الحق مجاز کے سنہ 1933 میں ترانہ لکھنے کے بعد سنہ 1955 میں یونیورسٹی کے ہی ایک اور طالب علم خان اشتیاق محمد نے اس گانے کو کمپوز کیا۔ جس سے اس وقت کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر ذاکر حسین بہت متاثر ہوئے اور تب سے لے کر آج تک مجاز کا لکھا ہوا یہ ترانہ اے ایم یو کے مختلف پروگرامز کا حصہ بن گیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقریباً سبھی پروگراموں کے آخر میں اے ایم یو ترانہ بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک ترانہ ٹیم بھی ہے، جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی موجود ہوتی ہیں۔

اے ایم یو کے موجودہ و سابق طلبہ اور تدریسی و غیر تدریسی عملہ کے افراد اے ایم یو ترانے کو بڑے ہی عقیدت و احترام سے سنتے ہیں۔ اے ایم یو ترانہ اے ایم یو کی پہچان ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی علیگ (اے ایم یو طلبہ) رہتے ہیں وہ اسے سن کر تسکین محسوس کرتے ہیں۔ اے ایم یو کے مختلف پروگرام اور خاص کر جشن یوم سر سید کی تقریب میں ترانہ کو بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔

اے ایم یو سے ریٹائرڈ، 34 سال موسیقار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے جانی فوسٹر نے مجاز کی برسی پر ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اے ایم یو میں ملک کی مختلف ریاستوں کے طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے اے ایم یو ترانے کو کشمیری، بنگالی، مراٹھی، پنجابی سمیت دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے، اردو زبان میں تو ترانہ بڑی عزت و احترام شان و شوکت سے پوری دنیا میں پڑھا جاتا یے، مجاز کا لکھا ہوا ترانہ اے ایم یو کی پہچان بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجاز کا لکھا ہوا اے ایم یو کا ترانہ 365 دن ہمارے سینوں میں دھڑکتا رہتا ہے اور میرے خیال سے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا، ان کو یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہوگا کہ ان کے لکھے ہوئے ترانے، نظم، شاعری کو زندہ رکھے۔

جانی فوسٹر سے مجاز کی برسی پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

علی گڑھ: عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا ترانہ اردو کے شاعر اور اے ایم یو کے سابق طالب علم اسرار الحق مجاز نے 1933 میں لکھا۔ اسرار الحق کو مجاز لکھنوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ کی پیدائش 19 اکتوبر 1911 کو ہوئی اور آپ کی وفات آج کے ہی دن 5 دسمبر 1955 میں لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقریبا سبھی پروگرام کے آخر میں اے ایم یو ترانہ بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔ اے ایم یو کی ایک ترانہ ٹیم بھی ہے، جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی موجود ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Sir Syed Day مجاز کا ترانہ، جشن یوم سرسید کی شان ہے


اے ایم یو ترانہ:
"یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سر شاہِ نگاہِ نرگس ہوں پابستۂ گیسوئے سمبل ہوں"

اسرار الحق مجاز کے سنہ 1933 میں ترانہ لکھنے کے بعد سنہ 1955 میں یونیورسٹی کے ہی ایک اور طالب علم خان اشتیاق محمد نے اس گانے کو کمپوز کیا۔ جس سے اس وقت کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر ذاکر حسین بہت متاثر ہوئے اور تب سے لے کر آج تک مجاز کا لکھا ہوا یہ ترانہ اے ایم یو کے مختلف پروگرامز کا حصہ بن گیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقریباً سبھی پروگراموں کے آخر میں اے ایم یو ترانہ بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک ترانہ ٹیم بھی ہے، جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی موجود ہوتی ہیں۔

اے ایم یو کے موجودہ و سابق طلبہ اور تدریسی و غیر تدریسی عملہ کے افراد اے ایم یو ترانے کو بڑے ہی عقیدت و احترام سے سنتے ہیں۔ اے ایم یو ترانہ اے ایم یو کی پہچان ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی علیگ (اے ایم یو طلبہ) رہتے ہیں وہ اسے سن کر تسکین محسوس کرتے ہیں۔ اے ایم یو کے مختلف پروگرام اور خاص کر جشن یوم سر سید کی تقریب میں ترانہ کو بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔

اے ایم یو سے ریٹائرڈ، 34 سال موسیقار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے جانی فوسٹر نے مجاز کی برسی پر ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اے ایم یو میں ملک کی مختلف ریاستوں کے طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے اے ایم یو ترانے کو کشمیری، بنگالی، مراٹھی، پنجابی سمیت دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے، اردو زبان میں تو ترانہ بڑی عزت و احترام شان و شوکت سے پوری دنیا میں پڑھا جاتا یے، مجاز کا لکھا ہوا ترانہ اے ایم یو کی پہچان بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجاز کا لکھا ہوا اے ایم یو کا ترانہ 365 دن ہمارے سینوں میں دھڑکتا رہتا ہے اور میرے خیال سے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا، ان کو یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہوگا کہ ان کے لکھے ہوئے ترانے، نظم، شاعری کو زندہ رکھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.