میٹنگ کے بعد مولانا عمرین رحمانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بابری مسجد معاملے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف واضح ہے۔ عدالت میں پوری مضبوطی کے ساتھ بورڈ نے اپنے دلائل پیش کیے ہیں اور امید ہے کہ فیصلہ حق و انصاف پر مشتمل ہوگا۔
انہوں نے لکھنؤ کے ندوۃ العلماء میں منعقد ہونے والی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میٹنگ کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مصالحت کا وقت ختم ہوگیا اور جس طریقے سے مصالحت پر بیان بازی آ رہی ہے۔ اس کو پرسنل لا بورڈ نے خارج کر دیا ہے اور اب عدالت سے جو فیصلہ آئے گا سے پرسنل لا بورڈ قبول کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک کے مسلمانوں سے اپیل بھی کر رہا ہےکہ فیصلہ حق میں آئے یا مخالفت میں آئے، اسے قبول کیا جائے آئے اور کسی طریقے سے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ پرامن طریقہ سے رہا جائے۔
حالیہ دنوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ نے لکھنؤ میں بابری مسجد پر ایک بیان دیا تھا کہ اگر فیصلہ مسلم فریق کے حق میں آئے تب بھی زمین رام مندر کے لیے دے دینا چاہیے، اس پر مولانا محفوظ عمرین رحمانی نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضمیر الدین شاہ کی ذاتی رائے ہے، یہ نہ مسلمانوں کی رائے ہے اور نہ پرسنل لا بورڈ کی رائے ہے بلکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جو پہلے موقف تھا اسی موقف پر آج بھی قائم ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کو درست رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
مولانا توقیر رضا کی آپسی مصالحت والے بیان پر مولانا محفوظ عمرین رحمانی نے کہا کہ آزادی کے بعد سے مسلمان دنگے اور فساد جھیل رہا ہے اور دنگے اور فساد کے خوف سے وہ مسجد کی زمین نہیں دے سکتا ہے اس طریقے سے تو راستے کھل جائیں گے اور اور بھارت کی سبھی مسجدیں مسلمانوں کو خوف دیکھا کر چھین لے جائے گی۔
واضح رہے کہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ نومبر ماہ کے وسط میں بابری مسجد اور رام مندر کا متنازعہ معاملے کا فیصلہ عدالت سنا دے گی، جس پر اب ریاستی حکومت بھی پوری طریقے سے مستعد نظر آرہی ہے۔
ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی کے سخت احکامات جاری کر دیے گئے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ ڈی جی پی بھی سیکورٹی کے انتظامات کا جائزہ لینے آج ایودھیا پہنچیں گے۔