ETV Bharat / state

اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر خراج عقیدت

اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے نشاط گنج قبرستان میں اسرار الحق مجاز کی قبر ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (لکھنؤ) کی جانب سے یونیورسٹی ترانہ کے خالق اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی گئی۔

اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر خراج عقیدت
اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر خراج عقیدت
author img

By

Published : Dec 6, 2020, 5:38 PM IST

اسرارالحق مجاز لکھنوی کا محض 44 برس کی عمر میں 6 دسمبر سنہ 1955 کو انتقال ہوا تھا۔ ان کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ 'اگر اسرار کی عمر زیادہ ہوتی تو وہ اس صدی کے سب سے بڑے شاعر ہوتے ہیں۔

اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر خراج عقیدت

اسرارالحق مجاز کی ایک مشہور غزل درج ذیل ہے۔

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی

ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا

کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

دنیا لرز گئی دل حرماں نصیب کی

اس طرح ساز عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجاز

اتنا نہ اہل عشق کو رسوا کرے کوئی

انور حبیب علوی نے مجاز کی حیات و شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محض 44 برس کی زندگی میں اردو شاعری میں جو مقام مجاز نے حاصل کیا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

مجاز لکھنوی 19 اکتوبر 1911 کو ضلع بارہ بنکی کے رودولی قصبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام اسرارالحق اور 'مجاز' تخلص تھا۔ حصول تعلیم کے لیے وہ لکھنؤ آئے اور یہیں سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی۔

سنہ 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کر کے 1936 میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے 'آواز' کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

مجاز لکھنوی کی زندگی اُمنگوں، حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں اور مایوسی سے گِھر کر ختم ہوگئی لیکن انہوں نے 'نذر علی گڑھ' نامی نظم لکھ کر علیگ برادری کو ترانہ کی شکل میں جو تحفہ دیا ہے، وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

اسرارالحق مجاز کا لکھنؤ سے گہرا تعلق رہا۔ یہاں کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ ہوا کہ وہ اپنے تخلص میں 'لکھنؤ' جوڑ لیا اور 'مجاز لکھنوی' کے نام سے مشہور ہوئے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید محمد شعیب نے کہا کہ 'اسرار الحق مجاز نے علیگ برادری کو ترانہ کا تحفہ دیا ہے۔ یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا اور سُنا جاتا ہے۔ آج دنیا کے ہر خطے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کوئی بھی پروگرام ہو اس میں ان کا ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر طارق صدیقی نے بتایا کہ اسرارالحق مجاز 44 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے تھے آج ان کی یوم وفات ہے۔ معروف شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ 'اگر اسرار الحق مجاز کی عمر زیادہ ہوتی تو وہ اس صدی کے سب سے بڑے شاعر ہوتے ہیں۔

طارق صدیقی نے کہا کہ مجاز کی شاعری میں دو الگ الگ طرح کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، رومانوس اور انقلاب۔ مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے جسے پانا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ آج پوری دنیا خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مجاز لکھنوی نے آج سے تقریباً 90 سال پہلے خواتین کے لیے بڑی بات کہہ دی تھا جو درج ذیل ہے۔

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو ساجد بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزمانی لیتی تو اچھا تھا

مجاز کی نظم 'نذر علی گڑھ' عالمی شہرت یافتہ دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانے کا حصہ ہے۔

جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا

ہر سرد و سمن پر برسے گا، ہر دست و دامن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن میں برسےگا

اسرار الحق مجاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی جڑے رہے۔ مشہور نغمہ نگار جاوید اختر مجاز لکھنوی کے بھانجے ہیں۔ جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر کی قبر مجاز لکھنوی کے برابر میں موجود ہے۔

اسرارالحق مجاز لکھنوی کا محض 44 برس کی عمر میں 6 دسمبر سنہ 1955 کو انتقال ہوا تھا۔ ان کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ 'اگر اسرار کی عمر زیادہ ہوتی تو وہ اس صدی کے سب سے بڑے شاعر ہوتے ہیں۔

اسرار الحق مجاز کے یوم وفات پر خراج عقیدت

اسرارالحق مجاز کی ایک مشہور غزل درج ذیل ہے۔

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی

ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا

کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

دنیا لرز گئی دل حرماں نصیب کی

اس طرح ساز عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجاز

اتنا نہ اہل عشق کو رسوا کرے کوئی

انور حبیب علوی نے مجاز کی حیات و شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محض 44 برس کی زندگی میں اردو شاعری میں جو مقام مجاز نے حاصل کیا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

مجاز لکھنوی 19 اکتوبر 1911 کو ضلع بارہ بنکی کے رودولی قصبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام اسرارالحق اور 'مجاز' تخلص تھا۔ حصول تعلیم کے لیے وہ لکھنؤ آئے اور یہیں سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی۔

سنہ 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کر کے 1936 میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے 'آواز' کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

مجاز لکھنوی کی زندگی اُمنگوں، حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں اور مایوسی سے گِھر کر ختم ہوگئی لیکن انہوں نے 'نذر علی گڑھ' نامی نظم لکھ کر علیگ برادری کو ترانہ کی شکل میں جو تحفہ دیا ہے، وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

اسرارالحق مجاز کا لکھنؤ سے گہرا تعلق رہا۔ یہاں کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ ہوا کہ وہ اپنے تخلص میں 'لکھنؤ' جوڑ لیا اور 'مجاز لکھنوی' کے نام سے مشہور ہوئے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید محمد شعیب نے کہا کہ 'اسرار الحق مجاز نے علیگ برادری کو ترانہ کا تحفہ دیا ہے۔ یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا اور سُنا جاتا ہے۔ آج دنیا کے ہر خطے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کوئی بھی پروگرام ہو اس میں ان کا ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر طارق صدیقی نے بتایا کہ اسرارالحق مجاز 44 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے تھے آج ان کی یوم وفات ہے۔ معروف شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ 'اگر اسرار الحق مجاز کی عمر زیادہ ہوتی تو وہ اس صدی کے سب سے بڑے شاعر ہوتے ہیں۔

طارق صدیقی نے کہا کہ مجاز کی شاعری میں دو الگ الگ طرح کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، رومانوس اور انقلاب۔ مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے جسے پانا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ آج پوری دنیا خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مجاز لکھنوی نے آج سے تقریباً 90 سال پہلے خواتین کے لیے بڑی بات کہہ دی تھا جو درج ذیل ہے۔

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو ساجد بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزمانی لیتی تو اچھا تھا

مجاز کی نظم 'نذر علی گڑھ' عالمی شہرت یافتہ دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانے کا حصہ ہے۔

جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا

ہر سرد و سمن پر برسے گا، ہر دست و دامن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن میں برسےگا

اسرار الحق مجاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی جڑے رہے۔ مشہور نغمہ نگار جاوید اختر مجاز لکھنوی کے بھانجے ہیں۔ جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر کی قبر مجاز لکھنوی کے برابر میں موجود ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.