علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی آج دوپہر تقریباً 2:30 بجے وفات پاگئے۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی کتابیں جن میں شبلی شناسی کے اولین نقوش، تحقیقی مقالات، دیوان ناظم، افکار و شخصیات، شبلی کی علمی و ادبی خدمات، شرح دیوان اردو غالب، شبلی معاصرین کی نظر میں، انتخاب مومن، نقش معنی وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے 531 سے زیادہ مقالات ملک اور بیرون ملک خصوصاً پاکستان (نقوش، لاہور- اقبالیات، لاہور- صحیفہ، لاہور-قومی زبان، کراچی، تحصیل وغیرہ) کے معیاری جرنل میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو نقوش ایوارڈ لاہور (پاکستان) کے علاوہ بھارت کی مختلف اردو اکیڈمیز نے انعامات و اعزازات سے نوازا۔ انہوں نے مختلف سیمیناروں میں 331 مقالات متعدد کلیدی اور صدارتی خطبے پیش کئے، اس کے علاوہ بطور ریسورس پرسن 55 کانفرنسوں اور ورکشاپ میں شرکت کی۔ اکتوبر 2019 تک ان کی زیر نگرانی 48 پی ایچ ڈی اور ایم فل مقالات پر ڈگریاں تفویض ہوئیں۔
اے ایم یو شعبہ اردو کے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال سے اردو دنیا کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، شمس الرحمن فاروقی کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ ہمیں ایک اور بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کا مطلب اردو ادب، اردو تہذیب کا ایک بہترین نمائندہ اور ظفر احمد صدیقی کا مطلب علوم مشرقی خاص طور سے اردو عربی اور فارسی کا بے پناہ عالم ہم سے رخصت ہوگیا۔
سراج اجملی نے کہا کہ ظفر صاحب کا جانا ہم سب کا ذاتی سانحہ بھی ہے، کیونکہ وہ ہمارے شعبہ، خاندان کے فرد کی حیثیت رکھتے تھے۔
اے ایم یو اردو اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر زبیر شاداب خان نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو کو ایک نگینہ میسر ہوا تھا، جو بنارس سے چل کر علیگڑھ آیا تھا۔ بے حد عمدہ انسان، بہت خلیق استاد اور بہت بڑے عالم تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسی مہینے دو بڑے عالموں کا انتقال ہوا فاروقی صاحب اور ظفر صاحب کا، میں نے بہت سارے لوگوں سے سیکھا اور سنا ہے میں سینٹر انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویج میں رہا تو آپ ہمیشہ تشریف لایا کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ظفر صاحب کو یہ معلوم تھا کہ کیا نہیں بولنا ہے یہ بہت بڑی خاصیت ہوتی ہے، بہت بڑا ملکہ ہوتا ہے ایک استاد کے لیے۔
اے ایم یو ویمنس کالج، شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ ظفر صاحب کا انتقال سے جو خلا خاص کر اردو تحقیق میں پیدا ہوا ہے، اس کا پر ہونا آسان نہیں۔ میری شاناسائی پہلی بار ایک مضمون سے ہوئی جو بہت طویل مضمون تھا۔
مزید پڑھیں:
معروف محقق پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا انتقال
شبلی کے حوالے سے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور شبلی پر ان کا اتنا وقیع کام ہے کہ شاید ہمارے یہاں کسی دوسرے آدمی کی شبلی پر اتنے پہلو سے اتنی کتابیں موجود نہیں ہیں۔