علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے بھی اپنے مشن کا آغاز اپنے اخبار "علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1866 میں اور پھر 'تہذیب الاخلاق' 1870 نکال کر کیاتھا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تحریک کی ابتدا بھی صحافت سے ہوتی ہے۔
واضح ہو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شعبہ ترسیل عامہ گزشتہ کئی برسوں سے خاموشی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہا ہے اور اس کے کئی طلبا و طالبات نے پرنٹ اور ٹی وی میڈیا میں اپنے لیے باوقار جگہ بنائی ہے۔
گذشتہ چند برسوں میں اس شعبہ کی بنیادی ڈھانچے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے اور شعبہ میں تین کیمرہ، اسٹوڈیو اور فرینک اینڈ ڈیبی اسلام آڈیٹوریم کی تعمیر کے ساتھ ہی اس کی تعلیمی معیار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
شعبہ ترسیل عامہ کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، 'ہم لوگوں کو بہت خوشی ہوئی اور یہ پہلا موقع ہے کہ ہماری یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ کی اس طرح سے پذیرائی ہوئی ہے۔
ہمارا شعبہ 1997 میں بنا، اس سے پہلے ڈپلومہ کورس تھا تو ہمارے یہاں ایک ایم اے کورس ہے، دو ڈپلومہ کراتے ہیں پبلک ریلیشن اور جرنلزم میں اور پی ایچ ڈی بھی ہے۔
ہم دو سال تک بہت زیادہ ٹریننگ کراتے ہیں، طلباء کو جو ضروری چیزیں ہیں، جو صحافت ہے، عملی تجربہ کے لئے باہر سے بھی لوگوں کو بلاتے ہیں۔'
پروفیسر شافع قدوائی نے مزید بتایا، 'ہمارے یہاں بہت اچھا اسٹوڈیو ہے، تین کیمرہ سیٹ اور ہمارے خیال میں جتنی بھی یونیورسٹی ہے ملک میں ان میں پہلا شعبہ ترسیل علامہ ہے جس کے پاس اپنا علیحدہ آڈیٹوریم ہے۔ ہمارے بچے جو فلم بناتے ہیں ان کو دیکھنے کے لیے، ہمارے بچے روزانہ ایک اخبار بھی نکالتے ہیں آج کل پرنٹ میڈیا کا دور ختم ہوگیا ہے اس کے باوجود بھی لکھنے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے، اس کا ایک ڈیجیٹل ایڈیشن شائع ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں کے تقریباً 80 سے 85 فیصد طلباء کو نوکری مل جاتی ہے اور ہمارے شعبہ سے ابھی تک جو لوگ بہت اچھے جرنلسٹ اور اینکر نکلے ہیں، جنہوں نے یونیورسٹی کا اور شعبہ کا نام روشن کیا اس میں رومانہ اسرار (اے بی پی نیوز)، سمیرا خان (ٹی وی نائن)، عارفہ شیروانی (وائر)، انوج کمار (دا ہندو)، وجیندر پراشر (ہندوستان ٹائم)، پونم شرما (آج تک)، ندیم خان (آج تک)، ای ٹی وی بھارت میں بھی جو علی گڑھ کے رپورٹر ہیں، انہوں نے بھی ہمارے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے اور نیوز 18 میں اینکر ہنا زبیری، پاشا یہ تمام لوگوں نے ہمارے جہاں سے ہی تعلیم حاصل کی ہے جو شعبہ اور یونیورسٹی کا نام روشن کر رہے ہیں۔
ہمارے یہاں کے بچوں کو انگلش کے علاوہ ہندی اور اردو میں بھی مہارت حاصل ہوتی ہے، تو یہاں کے جو طالب علم ہے ظاہر ہے بہت سی اردو میں چیزیں ملتی ہیں تو یہی ہمارے یہاں کی یو ایس پی ہے کہ اردو جاننے والے لوگوں کو اور جو کلچر ہے، شاعری ہے تو اس طرح کے جو تمام چیزیں ہیں ان میں بھی ہمارا بچہ بہت آگے ہیں۔'
پروفیسر شافع نے مزید کہا، 'تو اس لحاظ سے یہ بہت اچھا ہے اور سرسید احمد خان نے بھی اپنے مشن کا آغاز اپنے اخبار 'علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ' 1866 میں اور پھر تہذیب الاخلاق 1870 میں نکال کر کیا۔ علی گڑھ تحریک کی ابتدا بھی صحافت سے ہوتی ہے تو یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے تو یہ 20 سے 25 سالوں میں جو کوشش کی ہے اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
مزید پڑھیں:
اندور میں کورونا کے معاملے 14000 سے متجاوز
ہمارے یہاں ایم اے کورس میں 30 بچوں کو داخلے ملتے ہیں اور ایک داخلہ ٹیسٹ ہوتا ہے، جن کے ذریعے یہ داخلے ملتے ہیں۔ یہاں اساتذہ میں دو پروفیسر ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تین لیکچرار ہیں اور غیر تدریسی میں چار لوگ ہیں۔