علیگڑھ: خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے پر 16 روزہ پروگرام کے افتتاحی اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ صنفی بنیادوں پر تشدد کے بارے میں لوگ آگاہ ہور ہے ہیں لیکن یقینی طور پر اس سمت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ روک تھام صنفی بنیاد پر تشدد کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور ان کو ختم کرنے کی کوشش مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ نوجوان ایسے امتناعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ چیزیں آہستہ آہستہ بدل رہی ہیں، ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنے اور صنفی کرداروں اور دقیانوسی تصورات پر سوال اٹھانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں صنفی بنیاد پر تشدد کو قابل قبول بناتے ہیں۔ یہ کام مہمات، تربیت، ساتھیوں کی بیداری یا زندگی کے تمام پہلوؤں میں صنفی مساوات کی جہت کو شامل کرکے کیا جاسکتا ہے۔ Elimination of Violence Against Women
پروفیسر منصور نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں عوامی زندگی میں خواتین کی نمائندگی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ہر عمر کے گروپوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین دقیانوسی تصورات کو مسلسل توڑ رہی ہیں اور کاروباری منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہے اور سیاست، سول سروسز اور پولیس میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
مہمان خصوصی پرووائس چانسلر پروفیسر محمد گریز نے کہا کہ منفی بنیاد پر تشدد اور بدسلوکی کا کلچر خواتین کی قدر کو کم کرتا ہے، بدسلوکی کو معمول بناتا ہے یا اس کی شدت کو کم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عورت کے دل میں کیا ہے اور عورت کو 'کمزور جنس' نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ عورتوں کے لیے مردوں کی توہین اور نا انصافی ہوگی۔ Elimination of Violence Against Women
شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن: موضوع، تاریخ، اہمیت اور اہم حقائق کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں میں خواتین پر تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایک عورت کو اس کے ساتھی نے مار ڈالا، چھ سالہ بچی کو اس کے باپ نے قتل کر دیا، ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین نے قتل کردیا اور نوئیڈا میں ایک مقامی میڈیا اہلکار کو خودکشی پر مجبور کیا گیا یا شاید 16 ویں منزل سے نیچے پھینک دیا گیا۔ ہم ایسی وحشیانہ کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ معاشرے اور ہماری اجتماعی سوچ کے عمل میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑا ضرور ہے۔ AMU Commences 16-Day Observance
انہوں نے کہا کہ ہم ان مسائل پر ایک ایسی یونیورسٹی میں بات کر رہے ہیں جہاں عوام کا پیسہ علم کی تخلیق اور توسیع پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ایسے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح کے رویوں پر برہم ہونے کے لیے بیدار کریں اور پر تشد در جعت پسندی کے خلاف اجتماعی سماجی رویہ پید کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ پروفیسر نعیمه خاتون (پرنسپل، ویمنس کالج) نے خواتین کے خلاف تشدد اس کی اقسام اور فرد، معاشرے اور قوم پر اثرات کے موضوع پر گفتگو کی۔
یہ بھی پڑھیں : Conference on Mental Health اے ایم یو میں 'دماغی صحت اور کووڈ 19 چیلنجز اور مستقبل کے امکانات' پر بین الاقوامی کانفرنس