دراصل، شہلا طاہر سماج وادی پارٹی کے بینر پر بلدیہ نواب گنج کی چیئرپرسن منتخب ہو چکی ہیں حالانکہ وہ اب پرسپا میں شامل ہو چکی ہیں۔ ریاست اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود سنہ 2017ء میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں شہلا طاہر نے بی جے پی کے ضلع صدر رویندر سنگھ راٹھور کے کنبہ کی ایک خاتون کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی قد کا پرچم لہرایا تھا۔
انہوں نے بلدیاتی انتخات میں فتح حاصل کی لیکن اس کے بعد ان کی مشکلوں کا دور بھی شروع ہو گیا، جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
مقامی سطح پر بی جے پی کے کارکنان اور عہدے داران ان کی کرسی ہلانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی مکمل ہو چکے ترقیاتی کاموں میں جانچ کے نام پر تو کبھی ٹینڈر میں بدعنوانی کا الزام لگا کر تمام کاموں میں خلل ڈالنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے۔ شکایات کا انبار بریلی سے لے کر لکھنؤ تک کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اب چیئرپرسن شہلا طاہر پر تازہ الزام یہ ہے کہ وہ 26 مارچ بروز جمعہ کو ضلع انتظامیہ کے کافی دباؤ کے بعد ملازمین کی تنخواہ کے دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے بلدیہ نواب گنج دفتر پہنچی تھیں تو اُن کے ساتھ آئے رشتہ داروں نے بلدیہ کے دو ملازمین پر حملہ کر کے مارپیٹ اور بدسلوکی کی۔
اس معاملے میں ملازمین نے شہلا طاہر اور اس کی دو بھانجوں کے خلاف تھانہ نواب گنج میں مقدمہ درج کرایا ہے۔ اس کے بعد سے پولیس شہلا طاہر کو تلاش کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں:
میرٹھ سے اب صرف 50 منٹ میں دہلی کا سفر طے کر سکیں گے لوگ
فی الحال اُن کی جانب سے بیٹی ثمن طاہر نے ایک ویڈیو جاری کر کے ملازمین کے ساتھ ہوئے واقعہ کے بابت تفصیل سے بتایا ہے۔ ثمن طاہر نے ملازمین کے الزامات کے برعکس کہا ہے کہ میری والدہ نے ملازمین کے ساتھ مارپیٹ نہیں کی، بلکہ ملازمین نے میری والدہ کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اب انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ جانی اور مالی نقصان ہونے بھی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔