بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی زیرصدارت مجلس عاملہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اظہار خیال کیا گیا۔ بعدازاں بورڈ کی جانب سے پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اجلاس کی روداد سے واقف کروایا گیا۔
مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے صحافیوں کو اجلاس میں لئے گئے فیصلوں سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کریں گے۔
انہوں نے عدالت کی جانب سے مسجد کے بدلے میں 5 ایکڑ اراضی دینے کی جو بات کہی گئی تھی اس پر شرعی موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار جس جگہ پر مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تو پھر تاقیامت تک وہ مسجد برقرار رہتی ہے۔
مولانا عمرین نے مزید کہا کہ شریعت میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ مسجد کے عوض کسی اور چیز کو قبول کیا جائے جبکہ وہ دوسری زمین ہو یا مال ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم شرعی اعتبار سے اس بات کے پابند ہیں کہ مسجد کے بدلہ میں کسی اور چیز کو قبول نہ کریں۔
پریس کانفرنس میں سب سے پہلے قاسم رسول الیاس نے بورڈ کی جانب سے ایک اسٹیٹمنٹ پڑھ کر سنایا جس میں عدالت عظمی کے حالیہ کے مختلف نکات پر روشنی ڈالی گئی۔
اس موقع پر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کئی پہلوؤں پر نہ صرف باہمی تضاد ہے بلکہ کئی نقطوں پر یہ فیصلہ سمجھ سے پرے ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب عدالت نے مسجد میں مورتیوں کو زبردستی رکھنے کو غیرقانونی قرار دیا ہے تو وہ کیسے غیرقانونی رکھی گئی مورتیوں کو Deity مان سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی دفعہ 142 کا استعمال کرتے وقت معزز ججوں نے وقف ایکٹ 1995 کے دفعات کو نظر انداز کردیا جس میں مسجد کی زمین کے Exchange or Transfer کو یکسر منع کیا گیا ہے اور دفعہ 142 کے تحت معزز ججوں کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہے۔
پریس کانفرنس میں ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی، مولانا عمرین محفوظ رحمانی، ایڈوکیٹ شکیل، ایڈوکیٹ ارشاد احمد، ایڈوکیٹ شمشاد، قاسم رسول الیاس کے علاوہ دیگر ارکان شریک تھے۔