اخلاق محمد خان (شہریار) کی پیدائش 16 جون 1936 میں ہوئی۔ ان کے ایک صاحبزادی اور دو صاحبزادے ہیں۔
اخلاق محمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور شعبہء اردو میں پروفیسر کے ساتھ صدرِ شعبہ بھی رہے۔ شہر یار شعبہء اردو اے ایم یو سے 1996 میں ریٹائر ہوئے۔
اخلاق محمد خان (شہر یار) کے یوم وفات کے موقع پر اے ایم یو کے شعبہ اردو کے پروفیسر سراج اجملی نے خصوصی گفتگو میں کہا کہ '13 فروری 2012 کو شہریار صاحب جسمانی طور سے ہم سے دور ضرور ہو گئے ہیں لیکن ان کی یادیں، ان کی محبتیں، ان کی شفقتیں اور ان کا تخلیقی کام نہ صرف ہمارے دلوں میں ہے بلکہ اردو ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔'
پروفیسر سراج اجملی نے مزید کہا شہر یار صاحب ہمارے استاد تھے، وہ یہیں اردو کے طالب علم رہے، یہیں سے ریسرچ کیا اور یہیں لیکچرر، ریڈر، پروفیسر اور صدرِ شعبہ رہے۔ وہ 1996 میں ریٹائر ہوگئے تھے لیکن اس کے بعد بھی 26-27 برس لوگوں کے ساتھ رہے۔
پروفیسر سراج اجملی نے مزید کہا کہ شہر یار صاحب نے ایسے اشعار کہے ہیں جو ہمیشہ زندہ ہی نہیں رہیں گے بلکہ ہمارے حافظوں کا حصہ بنے رہیں گے۔ نطمیں ایسی کہی ہیں جن سے ہمیشہ جدید شاعری کی معیار بندی میں کام لیا جاتا رہے گا۔
![urdu department](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-ali-urdu-poet-shaheryar-death-anniversary-01-7206466_13022021150226_1302f_1613208746_392.jpg)
شہریار کی کتاب کا نام 'آنکھ اور خواب کے درمیاں' کافی اہم ہے۔ شہریار نے فلموں میں گانے بھی لکھے تھے۔ فلم امراؤ جان کی ان کی یہ غزل 'ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں۔ کافی مشہور ہوئی۔
مزید پڑھیں:
'فرضی خبروں نے وبا کی شکل اختیار کر لی ہے'
ملاحضہ کیجئے شہر یار کے کچھ چند مشہور اشعار۔
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا۔