ETV Bharat / state

Protest in BHU on Bilkis Bano Case بنارس ہندو یونیورسٹی میں بلقیس بانو کی حمایت میں احتجاج و دستخطی مہم - بلقیس بانو کی حمایت میں احتجاج

بنارس ہندو یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ پر گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو کی حمایت میں دستخط مہم چلائی گئی۔ یہ مہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنارس ہندو یونیورسٹی اور دخل تنظیم کے قیادت میں منعقد ہوئی۔ مہم کا اغاز یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ سے ریوداس چوراہا سے لنکا تک مارچ نکال کر پرچہ تقسیم کیا گیا۔ Protest in BHU on Bilkis Bano Case

16166741_bhu
16166741_bhu
author img

By

Published : Aug 22, 2022, 3:40 PM IST

Updated : Aug 22, 2022, 9:46 PM IST

ورانسی: واضح رہے کہ 27 فروری 2002 کو گجرات دنگے میں سابرمتی ٹرین میں اگ زنی کے بعد گجرات فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا۔ پولیس اور دیگر سرکاری مشینری ناکام ہوگئی تھیں۔ 3 مارچ کو بلقیس کے گھر میں مسلح شرپسند داخل ہوئے تھے۔ پانچ ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی۔ 3 سال کی بچی کا سر دیوار پر پٹک کر قتل کر دیا گیا تھا۔ خاندان کے دیگر خواتین کو جنسی زیادتی كا ہدف بنایا گیا۔ Agitation in Favour of Bilkis Bano in Banaras Hindu University

اس طرح خاندان کے 11 اراکین میں سے سات کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے کیس درج کرنے میں بھی کافی لاپرواہی برتی تھی۔ پولیس پر لاپرواہی برتنے كا الزام عائد كیا گیا تھا۔ دباؤ پڑنے پر کیس سی بی آئی کو سپرد کر دیا گیا۔ سی بی آئی نے اپنی جانچ میں پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھائے انسانی حقوق کمیشن اور عدالت عظمی کے دخل کے بعد 2008 میں سبھی 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن گزشتہ 15 اگست کو گجرات حکومت نے سبھی عمر قید کی سزایافتہ مجرموںكو رہا کر دیا گیا۔اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی برسر اقتدار جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ بنارس میں بلقیس بانو کے مجرموں کے خلاف احتجاج و دستخطی مہم کا اہتمام كیاگیا۔اس میں بیشتر خواتین شامل ہوئیں جبکہ سماجی کارکنان نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر منزہ نے کہا کہ آج جب ہمارا میرا بھارت ملک اپنی آزادی کے 76 ویں سال کا جشن منا رہا ہے۔ لال قلعے کے فصیل سے 15 اگست کو وزیراعظم نے خواتین کے احترام کی بات کہی تھی اور اسی دن دوسری طرف گجرات میں حکومت نے بلقیس بانو کے كیس كے 11 مجرموں کو رہا کر دیا۔ان مجرموں کو پری میچور ریلیز کمیٹی ذریعہ رہا کیا گیا ہے۔اس میں مقامی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اور آر ایس ایس کے کارکنان شامل تھے۔ رہا ہوئے مجرموں کو بی جے پی ،آر ایس ایس اور اس سے وابستہ دیگرتنظیموں نے پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال بھی کیا جو کہ افسوسناك ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Gyanvapi Masjid Case:گیانواپی معاملہ میں سماعت آج


مہم میں شامل پروفیسر عارف نے کہا کہ بلقیس بانو کے گنہگاروں کو رہا کر دیا جانا ملک کی عدالتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا اس ملک میں کسی خاص مذہب سے وابستہ ہونا جرم ہے ؟ کیا کسی مجرم کا کسی خاص طبقے سے ہونے پر اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ یہ واقعہ ہماری وراثت کے لئے ایک دھبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں آئے دن مساوات انصاف کے بنیادی ڈھانچے کو کچلا جا رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب حکومت کے زیر سایہ انجام دیا جا رہا ہے ہے۔

ڈاکٹر اندو نے کہا کی بلقیس بانو معاملے میں حکومت کا قدم اس کے اکثریتی آبادی والے ایجنٹ کے موافق ہے اس لئے بی جے پی کے رہنمائوں کے ذریعے اس کی خوب تعریف کی جا رہی ہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ نفرت بھارت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طریقے سے آئینی اداروں کو نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا جارہا ہے اور اپنی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ہم بلقیس بانو کے لئے انصاف چاہتے ہیں۔ سبھی 11 مجرموں کے رہائی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

ورانسی: واضح رہے کہ 27 فروری 2002 کو گجرات دنگے میں سابرمتی ٹرین میں اگ زنی کے بعد گجرات فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا۔ پولیس اور دیگر سرکاری مشینری ناکام ہوگئی تھیں۔ 3 مارچ کو بلقیس کے گھر میں مسلح شرپسند داخل ہوئے تھے۔ پانچ ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی۔ 3 سال کی بچی کا سر دیوار پر پٹک کر قتل کر دیا گیا تھا۔ خاندان کے دیگر خواتین کو جنسی زیادتی كا ہدف بنایا گیا۔ Agitation in Favour of Bilkis Bano in Banaras Hindu University

اس طرح خاندان کے 11 اراکین میں سے سات کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے کیس درج کرنے میں بھی کافی لاپرواہی برتی تھی۔ پولیس پر لاپرواہی برتنے كا الزام عائد كیا گیا تھا۔ دباؤ پڑنے پر کیس سی بی آئی کو سپرد کر دیا گیا۔ سی بی آئی نے اپنی جانچ میں پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھائے انسانی حقوق کمیشن اور عدالت عظمی کے دخل کے بعد 2008 میں سبھی 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن گزشتہ 15 اگست کو گجرات حکومت نے سبھی عمر قید کی سزایافتہ مجرموںكو رہا کر دیا گیا۔اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی برسر اقتدار جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ بنارس میں بلقیس بانو کے مجرموں کے خلاف احتجاج و دستخطی مہم کا اہتمام كیاگیا۔اس میں بیشتر خواتین شامل ہوئیں جبکہ سماجی کارکنان نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر منزہ نے کہا کہ آج جب ہمارا میرا بھارت ملک اپنی آزادی کے 76 ویں سال کا جشن منا رہا ہے۔ لال قلعے کے فصیل سے 15 اگست کو وزیراعظم نے خواتین کے احترام کی بات کہی تھی اور اسی دن دوسری طرف گجرات میں حکومت نے بلقیس بانو کے كیس كے 11 مجرموں کو رہا کر دیا۔ان مجرموں کو پری میچور ریلیز کمیٹی ذریعہ رہا کیا گیا ہے۔اس میں مقامی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اور آر ایس ایس کے کارکنان شامل تھے۔ رہا ہوئے مجرموں کو بی جے پی ،آر ایس ایس اور اس سے وابستہ دیگرتنظیموں نے پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال بھی کیا جو کہ افسوسناك ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Gyanvapi Masjid Case:گیانواپی معاملہ میں سماعت آج


مہم میں شامل پروفیسر عارف نے کہا کہ بلقیس بانو کے گنہگاروں کو رہا کر دیا جانا ملک کی عدالتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا اس ملک میں کسی خاص مذہب سے وابستہ ہونا جرم ہے ؟ کیا کسی مجرم کا کسی خاص طبقے سے ہونے پر اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ یہ واقعہ ہماری وراثت کے لئے ایک دھبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں آئے دن مساوات انصاف کے بنیادی ڈھانچے کو کچلا جا رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب حکومت کے زیر سایہ انجام دیا جا رہا ہے ہے۔

ڈاکٹر اندو نے کہا کی بلقیس بانو معاملے میں حکومت کا قدم اس کے اکثریتی آبادی والے ایجنٹ کے موافق ہے اس لئے بی جے پی کے رہنمائوں کے ذریعے اس کی خوب تعریف کی جا رہی ہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ نفرت بھارت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طریقے سے آئینی اداروں کو نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا جارہا ہے اور اپنی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ہم بلقیس بانو کے لئے انصاف چاہتے ہیں۔ سبھی 11 مجرموں کے رہائی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

Last Updated : Aug 22, 2022, 9:46 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.