نوئیڈا: ہائی کورٹ کے نوٹس کے بعد نوئیڈا پولس نے تقریباً 18 ماہ بعد ایک مسلم بزرگ پر فرقہ وارانہ حملے کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا ہے۔ مقدمہ کے اندراج میں تاخیر کی وجہ سے کمشنریٹ پولس کے کام کرنے کے طریقے پر پھر سوالیہ نشان کھڑا ہوا ہے۔ یہ وہی پولیس ہے جو لوٹ کی واردات کو انجام دینے سے پہلے پکڑنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہیں پولیس ایک مسلم شخص کی شکایت کو 18 ماہ بعد درج کرتی ہے تو سوال تو بنتا ہے۔ اس معاملے میں کمشنریٹ پولیس کو شدید ہزیمت کا سامنا ہے۔ اس معاملہ کو ای ٹی وی بھارت نے ترجیحی بنیادوں پر اٹھایا تھا۔
یہ پہلا کیس نہیں
کاظم کے کیس میں مقدمہ کے اندراج میں تاخیر پہلی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے درجنوں کیسز منظر عام پر آچکے ہیں، جب عدالت کے حکم پر مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ آئے دن عدالت کے حکم پر مختلف تھانوں کے حدود میں مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ جب پولیس معاملے کا نوٹس نہیں لیتی تو متاثرین مجبوری میں عدالت کی پناہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ جولائی 2021 میں اتر پردیش نوئیڈا سیکٹر 37 بوٹینیکل گارڈن کے قریب کار میں سوار چار بدمعاشوں نے دہلی کے ذاکر نگر جامعہ نگر کے ایک مسلم بزرگ کو اغوا کر لیا تھا۔ متاثرہ کاظم احمد کا الزام ہے کہ بدمعاشوں نے کار کا دروازہ بند کرکے ان کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ اسکریو ڈرائیور سے آنکھیں نکالنے کی کوشش کی گئی۔ آنکھ پر اسکریو ڈرائیور (پیچکس) سے حملہ کیا گیا لیکن اسکریو ڈرائیور آنکھ کے بجائے ناک پر لگا۔
یہ بھی پڑھیں:
متاثرہ نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس دوران اسے برہنہ کیا گیا اور اس کی داڑھی بھی نوچی گئی۔ مسلم ہونے کے حوالے سے بھی فرقہ پرست الفاظ استعمال کیے گئے۔ شرپسندوں کا مقصد صرف لوٹ مار کرنا نہیں تھا۔ بلکہ مسلم ہونے کے ناطے زد و کوب کیا گیا۔ کاظم نوئیڈا سے علی گڑھ جا رہے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اس معاملے میں تقریباً 18 ماہ بعد سیکٹر 39 کوتوالی پولس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔ نوئیڈا پولیس اس معاملے میں اب تک ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر پائی ہے۔ متاثرہ کاظم کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق جب بزرگ شخص واقعے کے بعد زخمی حالت میں قریبی چوکی پر پہنچا تو پولیس اہلکاروں نے صرف اس کا نام اور پتہ پوچھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی۔
الزام ہے کہ پولیس اہلکاروں نے نہ تو متاثرہ کا ایم ایل سی کروایا اور نہ ہی انسانی بنیادوں پر علاج کرایا۔ یہی نہیں بلکہ اس واقعے کے حوالے سے ٹوئٹر پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیے گئے رویہ پر ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباؤ بھی بنایا گیا اور کہا گیا کہ معاملے کو چھپایا جائے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ نوئیڈا پولیس رات کو ان کے گھر پہنچی اور معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ یہ سب کچھ رات گئے کیا گیا۔ جب پولیس نے اس معاملے میں کارروائی نہیں کی تو متاثرہ اقلیتی کمیشن اور عدالت کی پناہ میں پہنچا۔ نوئیڈا زون کی پولیس اور متعلقہ تھانے کو معاملے سے الگ کر کے اس کی جانچ کرائم برانچ کے حوالے کی گئی ہے۔