معروف ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیاہے۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ "ہائی کورٹ نے جو کہا ہے، وہ بالکل سچ ہے۔" تمام پولیس افسران ایسے ہوتے ہیں، جو حکومت کی پالیسی کے تحت کام کرتے ہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بے گناہ لوگوں کو 'گئو کشی تحفظ ایکٹ' کا غلط استعمال کر کے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورٹ کے اس فیصلے سے ان افسران پر زیادہ اثر ہوگا، جو بی جے پی کے سپوٹر نہیں ہیں۔ اب وہ لوگ اس معاملے میں کاروائی کرنے سے پہلے ہائی کورٹ کے آرڈر پر ضرور نظر ثانی کریں گے۔
واضح رہے کہ جسٹس سدھارتھ نے تحفظ گائے ایکٹ کے تحت جیل میں قید رحیم الدین کی ضمانت عرضی پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا کہ جب گوشت برآمد ہوتا ہے، اس کی فورنسک جانچ بغیر اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو اس الزام میں جیل بھیج دیا جاتا ہے، جو جرم شاید اس نے کیا ہی نہیں ہے۔ظفریاب جیلانی نے مزید کہا کہ جو افسران حکومت کو خوش کرنا چاہتے ہیں، ان پر ہائی کورٹ کے فیصلے کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ مستقبل میں بھی قانون کا غلط استعمال کر کے فرضی کاروائی کر کے لوگوں کو جیل بھیجتے رہیں گے۔واضح رہے کہ اس قانون کا سب سے زیادہ استعمال مسلمانوں کے خلاف ہوتا آ رہا ہے۔ بڑی تعداد میں مسلمانوں پر 'این ایس اے' گؤ کشی کا الزام عائد کر کے اسے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ جن لوگوں کو 'گئو کشی تحفظ ایکٹ' کا استعمال کرتے ہوئے فرضی جیل بھیجا گیا ہے، اگر ہائی کورٹ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم کرتی ہے، تو اس قانون کے غلط استعمال پر روک تھام لگائی جا سکتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ہوم) اونیش اوستھی کے ایک بیان کے مطابق رواں برس 19 اگست تک اترپردیش پولیس نے ریاست میں 139 افراد کے خلاف این ایس اے کے تحت کاروائی کی ہے، ان میں سے 76 لوگوں پر گئو کشی کا الزام ہے۔