ETV Bharat / state

Media trial میڈیا ٹرائل پر سپریم کورٹ کے حکم کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں: جمعیۃ علماء ہند

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھول رہا ہے، میڈیا کے لوگ مسلمانوں کی گرفتاری پر بریکنگ نیوز چلاتے ہیں اور باعزت بری ہونے پر ایک لائن کی خبر دکھانا بھی انہیں گوارا نہیں، اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ Jamiat Ulema Hind

Etv Bharatمیڈیا ٹرائل پر سپریم کورٹ کے حکم کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں: جمعیۃ علماء ہند
Etv Bharatمیڈیا ٹرائل پر سپریم کورٹ کے حکم کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں: جمعیۃ علماء ہند
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 15, 2023, 5:31 PM IST

حیدرآباد: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے میڈیا ٹرائل سے متعلق، سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی اس سخت ہدایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند 7 اپریل 2020 کو کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر، تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں، بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور ہندو و مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے، متعصب ٹی وی چینلوں اور فرقہ پرست پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کررکھی ہے، جس پر اب تک 15 سماعتیں ہو چکی ہیں، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوبے اور سنجے ہیگڑے و دیگر وکلاء پیش ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے، کیونکہ مرکزی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، لیکن ہماری متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی۔
مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہے، لیکن آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دانستہ طور پر دل آزاری، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی کردار کشی اور اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے ہم اس کے سخت خلاف ہیں۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں متعصب میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہو رہی مسلسل منفی رپورٹنگ سے، مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جو آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے صریحاً خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں مذہبی نشہ پلا کر، فرقہ پرستی کا جو زہر بو رہا ہے وہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔ افسوس کہ یہ متعصب نیوز چینل عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرنے کی جگہ، منصوبہ بند طریقے سے نفرت کی تشہیر میں لگے رہتے ہیں۔ ڈبیٹ اور مباحثوں کے ذریعہ ایسی رپورٹیں دکھائی جا رہی ہیں، جس سے سماج میں فرقہ وارانہ صف بندی ہو اور مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا ملے، نفرت کی سیاست کرنے والے لوگ اپنی سیاست کو پروان چڑھا سکیں۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ایک بڑا حلقہ اقلیتوں، کمزور طبقات اور خاص کر مسلمانوں کے معاملے میں جج بن جاتا ہے، ملزم کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جیسا کہ ماضی میں دہشت گردی اور فسادات کے الزام میں گرفتار لوگوں کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن افسوس جب بعد میں عدالت انہیں بے قصور قرار دیکر باعزت بری کر دیتی ہے تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتائج انتہائی تباہ کن
انہوں نے کہا کہ گرفتاری پر بریکنگ نیوز چلاتے ہیں اور بری ہونے پر ایک لائن کی خبر دکھانا بھی انہیں گوارا نہیں، اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال اکشر دھام مندر حملہ مقدمہ میں، مفتی عبدالقیوم اور ان کے ساتھیوں کا ہے، جن کو ذیلی عدالت نے پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں، لیکن جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم سمیت تمام ملزمین کو نہ صرف باعزت بری کیا بلکہ خاطی افسران پر کاروائی کیئے جانے کا حکم بھی جاری کیا۔ ان کے بری ہونے پر کسی میڈیا نے کوئی نیوز نہیں چلائی، لیکن جب ان کی گرفتاری ہوئی تھی تو میڈیا نے ان کو پہلے ہی مجرم بناکر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تھا۔
میڈیا کا یہ دوہرا رویہ ملک اور اقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے، انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا آزادی اظہار رائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ دراصل میڈیا کے اس رویے سے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کا بڑا نقصان ہو رہا ہے، ایسے میں یہ ضروری ہے کہ سماج میں نفرت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔
مجھے عدالت سے پوری امید ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر کوئی ایسا فیصلہ ضرور سنائی گی، جس سے نفرت کا یہ کھیل ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے۔ تاہم سپریم کورٹ کا جو تازہ حکم آیا ہے اور جس میں مرکزی وزیر داخلہ کو تین ماہ کے اندر ضابطہ تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، وہ ایک اہم پیش رفت ہے، امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اب اس حکم کی حساسیت اور اہمیت کو نہ صرف سمجھے گی، بلکہ میڈیا کے لئے ایک ایسا ضابطہ تیار کرے گی جس سے اس کو لگام دی جاسکے۔

مزید پڑھیں: یکساں سول کوڈ آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے: ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے آخر میں کہا کہ میڈیا کی بے لگامی اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے فرقہ پرستوں کو فائدہ تو پہنچتا ہے، لیکن اس سے ملک کے امن واتحاد کو جو نقصان پہنچ چکا ہے، اس کی تلافی آسان نہ ہوگی، اس لئے میڈیا ٹرائل پر فی الوقت پابندی لگنی چاہئے۔

حیدرآباد: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے میڈیا ٹرائل سے متعلق، سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی اس سخت ہدایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند 7 اپریل 2020 کو کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر، تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں، بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور ہندو و مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے، متعصب ٹی وی چینلوں اور فرقہ پرست پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کررکھی ہے، جس پر اب تک 15 سماعتیں ہو چکی ہیں، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوبے اور سنجے ہیگڑے و دیگر وکلاء پیش ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے، کیونکہ مرکزی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، لیکن ہماری متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی۔
مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہے، لیکن آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دانستہ طور پر دل آزاری، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی کردار کشی اور اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے ہم اس کے سخت خلاف ہیں۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں متعصب میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہو رہی مسلسل منفی رپورٹنگ سے، مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جو آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے صریحاً خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں مذہبی نشہ پلا کر، فرقہ پرستی کا جو زہر بو رہا ہے وہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔ افسوس کہ یہ متعصب نیوز چینل عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرنے کی جگہ، منصوبہ بند طریقے سے نفرت کی تشہیر میں لگے رہتے ہیں۔ ڈبیٹ اور مباحثوں کے ذریعہ ایسی رپورٹیں دکھائی جا رہی ہیں، جس سے سماج میں فرقہ وارانہ صف بندی ہو اور مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا ملے، نفرت کی سیاست کرنے والے لوگ اپنی سیاست کو پروان چڑھا سکیں۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ایک بڑا حلقہ اقلیتوں، کمزور طبقات اور خاص کر مسلمانوں کے معاملے میں جج بن جاتا ہے، ملزم کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جیسا کہ ماضی میں دہشت گردی اور فسادات کے الزام میں گرفتار لوگوں کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن افسوس جب بعد میں عدالت انہیں بے قصور قرار دیکر باعزت بری کر دیتی ہے تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتائج انتہائی تباہ کن
انہوں نے کہا کہ گرفتاری پر بریکنگ نیوز چلاتے ہیں اور بری ہونے پر ایک لائن کی خبر دکھانا بھی انہیں گوارا نہیں، اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال اکشر دھام مندر حملہ مقدمہ میں، مفتی عبدالقیوم اور ان کے ساتھیوں کا ہے، جن کو ذیلی عدالت نے پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں، لیکن جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم سمیت تمام ملزمین کو نہ صرف باعزت بری کیا بلکہ خاطی افسران پر کاروائی کیئے جانے کا حکم بھی جاری کیا۔ ان کے بری ہونے پر کسی میڈیا نے کوئی نیوز نہیں چلائی، لیکن جب ان کی گرفتاری ہوئی تھی تو میڈیا نے ان کو پہلے ہی مجرم بناکر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تھا۔
میڈیا کا یہ دوہرا رویہ ملک اور اقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے، انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا آزادی اظہار رائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ دراصل میڈیا کے اس رویے سے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کا بڑا نقصان ہو رہا ہے، ایسے میں یہ ضروری ہے کہ سماج میں نفرت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔
مجھے عدالت سے پوری امید ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر کوئی ایسا فیصلہ ضرور سنائی گی، جس سے نفرت کا یہ کھیل ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے۔ تاہم سپریم کورٹ کا جو تازہ حکم آیا ہے اور جس میں مرکزی وزیر داخلہ کو تین ماہ کے اندر ضابطہ تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، وہ ایک اہم پیش رفت ہے، امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اب اس حکم کی حساسیت اور اہمیت کو نہ صرف سمجھے گی، بلکہ میڈیا کے لئے ایک ایسا ضابطہ تیار کرے گی جس سے اس کو لگام دی جاسکے۔

مزید پڑھیں: یکساں سول کوڈ آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے: ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے آخر میں کہا کہ میڈیا کی بے لگامی اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے فرقہ پرستوں کو فائدہ تو پہنچتا ہے، لیکن اس سے ملک کے امن واتحاد کو جو نقصان پہنچ چکا ہے، اس کی تلافی آسان نہ ہوگی، اس لئے میڈیا ٹرائل پر فی الوقت پابندی لگنی چاہئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.