آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنی رعایا کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے سنہ1918 میں عثمانیہ یونیورسٹی کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔
اس کے چند برسوں بعد ہی انہوں نے طلباء کے مطالعے کیلئے لائبریری کی سہولت فراہم کراکر اس میں مخلتف زبانوں کی معیاری و اہم کتابوں کو جمع کرایا۔
جبکہ آج بھی اس کا شمار بھارت کی ساتویں، اور جنوبی ہند کی تیسری قدیم ترین یونیورسٹی کے ساتھ ریاست حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی میں ہے۔
عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری نےاپنے بیش بہا نایاب کتابوں کے ذریعہ اردو زبان وادب کے فروغ میں جو کا رہائے نمایاں انجام دیاہے یقینا وہ قابل ستائش ہے۔
خاص طور پر بھارتی زبان کہلانے والی یہ اردو جس طرح آج اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوتی جارہی ہے، بالکل ایسی ہی حالت اس زبان کی لائبریری کی بھی ہے۔
عرصے دراز تک اس یونیورسٹی لائبریری سے اردو والے فیض حاصل کرتے رہے لیکن انگریزی زبان اور ٹکنالوجی کی جانب عوامی رجحان نے اردو کتابوں کو گرد و خاک کے حوالے کردیا۔
آج بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے نصاب میں اردو کورس شامل ہے لیکن اردو طلبا کی گھٹتی تعداد اور مطالعہ کا شوق نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
حالات سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ اب ان کتابوں کا مقدر مستقل تاریکی ہے۔
یونیورسٹی کے قدیم طلباء نے ان کتابوں کو نایاب ذخیرہ قرار دیتے ہوئے اس کے ڈیجٹلائزیشن کا مطالبہ کیا۔