ETV Bharat / state

لائبریری کو ڈیجٹیلائزیشن کرنے کا مطالبہ

عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری میں علم کی شمع روشن کرنے والی کتابوں کے لیے اب تاریکی مقدر بن چکی ہے۔ کبھی یونیورسٹی کی ذریعے تعلیم رہنے والی اس زبان کو پڑھنے والا کوئی نہیں۔

عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری کو ڈیجٹیلائزیشن کرنے کامطالبہ
author img

By

Published : Jul 14, 2019, 12:59 PM IST


آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنی رعایا کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے سنہ1918 میں عثمانیہ یونیورسٹی کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔

اس کے چند برسوں بعد ہی انہوں نے طلباء کے مطالعے کیلئے لائبریری کی سہولت فراہم کراکر اس میں مخلتف زبانوں کی معیاری و اہم کتابوں کو جمع کرایا۔

ویڈیو دیکھیں۔عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری کو ڈیجٹیلائزیشن کرنے کامطالبہ

جبکہ آج بھی اس کا شمار بھارت کی ساتویں، اور جنوبی ہند کی تیسری قدیم ترین یونیورسٹی کے ساتھ ریاست حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی میں ہے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری نےاپنے بیش بہا نایاب کتابوں کے ذریعہ اردو زبان وادب کے فروغ میں جو کا رہائے نمایاں انجام دیاہے یقینا وہ قابل ستائش ہے۔

خاص طور پر بھارتی زبان کہلانے والی یہ اردو جس طرح آج اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوتی جارہی ہے، بالکل ایسی ہی حالت اس زبان کی لائبریری کی بھی ہے۔

عرصے دراز تک اس یونیورسٹی لائبریری سے اردو والے فیض حاصل کرتے رہے لیکن انگریزی زبان اور ٹکنالوجی کی جانب عوامی رجحان نے اردو کتابوں کو گرد و خاک کے حوالے کردیا۔

آج بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے نصاب میں اردو کورس شامل ہے لیکن اردو طلبا کی گھٹتی تعداد اور مطالعہ کا شوق نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

حالات سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ اب ان کتابوں کا مقدر مستقل تاریکی ہے۔

یونیورسٹی کے قدیم طلباء نے ان کتابوں کو نایاب ذخیرہ قرار دیتے ہوئے اس کے ڈیجٹلائزیشن کا مطالبہ کیا۔


آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنی رعایا کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے سنہ1918 میں عثمانیہ یونیورسٹی کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔

اس کے چند برسوں بعد ہی انہوں نے طلباء کے مطالعے کیلئے لائبریری کی سہولت فراہم کراکر اس میں مخلتف زبانوں کی معیاری و اہم کتابوں کو جمع کرایا۔

ویڈیو دیکھیں۔عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری کو ڈیجٹیلائزیشن کرنے کامطالبہ

جبکہ آج بھی اس کا شمار بھارت کی ساتویں، اور جنوبی ہند کی تیسری قدیم ترین یونیورسٹی کے ساتھ ریاست حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی میں ہے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری نےاپنے بیش بہا نایاب کتابوں کے ذریعہ اردو زبان وادب کے فروغ میں جو کا رہائے نمایاں انجام دیاہے یقینا وہ قابل ستائش ہے۔

خاص طور پر بھارتی زبان کہلانے والی یہ اردو جس طرح آج اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوتی جارہی ہے، بالکل ایسی ہی حالت اس زبان کی لائبریری کی بھی ہے۔

عرصے دراز تک اس یونیورسٹی لائبریری سے اردو والے فیض حاصل کرتے رہے لیکن انگریزی زبان اور ٹکنالوجی کی جانب عوامی رجحان نے اردو کتابوں کو گرد و خاک کے حوالے کردیا۔

آج بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے نصاب میں اردو کورس شامل ہے لیکن اردو طلبا کی گھٹتی تعداد اور مطالعہ کا شوق نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

حالات سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ اب ان کتابوں کا مقدر مستقل تاریکی ہے۔

یونیورسٹی کے قدیم طلباء نے ان کتابوں کو نایاب ذخیرہ قرار دیتے ہوئے اس کے ڈیجٹلائزیشن کا مطالبہ کیا۔

Intro:عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری میں کبھی علم کی شمع روشن کرنے والی کتابوں کا اب تاریکی مقدر بن چکی ہے_ کبھی یونیورسٹی کی ذریعے تعلیم رہنے والی اس زبان کو پڑھنے والا کوئی نہیں_ آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنی رعایا کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے جب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا اس کے چند برسوں بعد ہی انہوں نے طلباء کے مطالعے کیلئے لائبریری کی سہولت فراہم کی اور اس میں مخلتف زبانوں کی معیاری و اہم کتابوں کو جمع کیا_ عرصے دراز تک اس یونیورسٹی لائبریری سے اردو والے فیض حاصل کرتے رہے لیکن انگریزی زبان اور ٹکنالوجی کی جانب عوامی رجحان نے اردو کتابوں کو گرد و خاک کے حوالے کردیا_


Body:عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کورس بھی جاری ہے لیکن اردو طلباء کی گھٹتی تعداد اور ان کو مطالعہ کا شوق نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کا کوئی پرسان حال نہیں حالات سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ اب ان کتابوں کا مقدر مستقل تاریکی ہے_ یونیورسٹی کے قدیم طلباء نے ان کتابوں کو نایاب ذخیرہ قرار دیتے ہوئے اس کے ڈیجٹلائزیشن کا مطالبہ کیا_


Conclusion:بائٹ 1 : ایچ اے شفیع_ سابق طالب علم عثمانیہ یونیورسٹی
بائٹ 2: سید فہیم الدین- سابق طالب علم عثمانیہ یونیورسٹی
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.