حیدرآباد و سکندرآبار کے شادی خانہ میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو 30 ہزار سے زائد ایسے نوجوان ہیں جو پھولوں سے اسٹیج سجانے کے کام سے جڑے ہیں ان کا کام بھی شادیوں سے ہی ہوتا ہے۔ اس طرح 30 ہزار الیکٹریشن ہیں جو شہر کے مختلف شادی خانوں میں خدمات انجام دیتے ہیں-
شادی خانوں کے ذمہ داروں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جب شادی خانوں میں تقاریب کی اجازت ہی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان 5 لاکھ ملازمین کا کیا ہوگا؟
شادی خانوں میں مختلف کام کرنے والوں کو باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی بلکہ جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تب ہی انہیں کام ملتا ہے اور اسی سے ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔
شادی خانہ کے مالک عامر علی خان نے کہا کہ 'ہم لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شادی خانوں کے لیے وسیع منصوبہ بندی کرے اور سماجی فاصلوں کے ساتھ شادی کی تقریب کی اجازت دے اس شعبہ سے منسلک افراد کی روزی روٹی چل سکے۔