پرنسپال سکریٹری بلدی نظم ونسق وشہری ترقی اروند کمار نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا”گذشتہ روز میں نے عثمان ساگر کے سیلاب کے دلچسپ انتباہی وارننگ آلہ کو دیکھا۔یہ گرامافون کی طرح نظرآنے والا آلہ کبھی، ذخیرہ آب کے خطرہ کے نشان تک پہنچنے پر یہ آلہ کام کرتا تھا۔اس آلہ کی ہر لائن پانی کی حقیقی سطح کو ظاہر کرتی تھی۔ہم اس کی مرمت کی کوشش کریں گے“۔
واٹربورڈ اس خراب آلہ کو محفوظ رکھے ہوئے ہے۔اس کو جی کینٹ لمیٹیڈ لندن اینڈ لوٹن نے تیار کیا تھا۔نظام حیدرآباد نے دونوں جڑواں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد کو پینے کے پانی کی سپلائی کے اس اہم ذخیرہ آب کی تکمیل کے بعد اس کو 1920میں عثمان ساگر میں نصب کروایاتھا۔
ہردن محکمہ موسمیات کے عہدیدار گھوڑے پر سوار ہوکر اس ذخیرہ آب پہنچتے تاکہ اس اہم ذخیرہ آب کی آبی سطح معلوم کی جاسکے۔ایک ریڈنگ کے لئے وہ دن بھر یہیں قیام کرتے۔یہ وقت طلب کام تھا۔اسی لئے نظام حیدرآباد نے انجینئرنگ کے عہدیداروں سے مشاورت کرتے ہوئے عثمان ساگر میں ایک ایسا آلہ نصب کروایا جو پانی کی سطح کو معلوم کرے۔پانی کی سطح کو معلوم کرنے کے لئے آڈیبل انڈی کیٹر بھی استعمال کیاگیا تھا۔
مزید پڑھیں:حیدرآباد کا اہم ذخیرہ آب، شدید بارش کے باوجود خشک کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
گراما فون نما آلہ کے ذریعہ آبی سطح معلوم کی جاتی تھی۔اس کو بہتر بنانے کے لئے قبل ازیں کوششیں کی گئیں تاہم 2009میں اس کو واٹر میوزیم میں رکھ دیاگیا جو خیریت آباد میں واٹربورڈ کے دفتر میں ہے۔یہ میوزیم بھی بند کردیاگیا اور اس آلہ کو بعد ازاں سالار جنگ میوزیم منتقل کردیاگیاتھا تاہم یہ آلہ اب اس کے اصل مقام عثمان ساگر لایاگیا۔
یو این آئی