حیدرآباد کے پرانے شہر کے علاقہ دبیر پورہ سے 3 ستمبر کو ایک مدرسہ کا طالب علم 12 سالہ محمد اکرم علی عرف فرقان اچانک لاپتہ ہوگیا تھا۔ طالب علم کی ماں ناظمہ بیگم نے پولیس اسٹیشن دبیر پورہ میں شکایت درج کرائی تھی جس کے نتیجہ میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک ایف آئی آر جاری کیا اور اغواء کا مقدمہ درج کیا تھا۔ لیکن پولیس نے ابتداء سے ہی اس معاملہ میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور بعد ازاں طالب علم کے والدین کو یہ ظاہر کروایا کہ ان کے لڑکے کی ٹرین حادثہ میں موت واقع ہوچکی ہے اور ان کے بچہ کی ایک قبرستان میں تدفین بھی کردی گئی ہے۔ طالب علم کی ماں کو پولیس کے اس جواب سے اطمینان حاصل نہیں ہوا اور تلنگانہ ہائی کورٹ میں حبس بیجا کی ایک درخواست داخل کی تھی جس میں پولیس نے استدلال پیش کیا کہ لاپتہ طالب علم اکرم علی کی موت واقع ہوچکی ہے اور اس سلسلہ میں ایک فارنسک رپورٹ بھی داخل کی گئی۔
اس رپورٹ میں کئی تضاد پائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں احکامات جاری کرنے کے بجائے درخواست کو خارج کردیا تھا۔ طالب علم کے والدین نے شہر کے ایک وکیل خواجہ اعجاز الدین کے ذریعہ سپریم کورٹ میں خصوصی درخواست داخل کی جس کی سماعت چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی بنچ نے کی۔ بحث کے دوران وکیل نے عدالت کو واقف کرایا کہ شاد نگر ریلوے پٹریوں سے ایک نعش دستیاب ہوئی تھی اور اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد پولیس نے اسے دفنادیا تھا لیکن ریلوے پولیس کی ایف آئی آر میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ نعش ایک خاتون کی تھی۔
پولیس اور فارنسک رپورٹ کے درمیان تضاد ہونے کے نتیجہ میں چیف جسٹس آف انڈیا نے تلنگانہ حکومت بشمول ڈائرکٹر جنرل پولیس تلنگانہ اور کمشنر پولیس حیدرآباد و دیگر کو احکامات جاری کرتے ہوئے اندرون چار ہفتے اس معاملہ میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ناظمہ بیگم نے بتایا کہ انہیں حیدرآباد پولیس پر اعتماد نہیں ہے اور اس کی تحقیقات سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن سے کروائی جائے تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جاسکے۔