سنہ 1687ء میں مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ فتح کرنے کے لیے اس توپ کو لایا تھا۔
اس توپ کا وزن 16 ٹن سے زیادہ ہے اور اس کی لمبائی 34 فٹ ہے۔جبکہ فتح رہبر توپ کا نقش و نگار قابل دید ہے۔
قلعہ گولکنڈ ہ سے متصل یہ زمین سے 70 فٹ اونچی ہے اس کی مضبوط دیوار اور ساتھ ہی وہاں ایک گہرا پانی کا خندق بھی ہے۔
قلعہ گولکنڈہ کے پانچ دروازے ہیں جن کے نام فتح در وازہ، موتی دروازہ، جمالی دروازہ، بنجاری دروازہ اور مکی دروازہ ہیں۔ دروازوں سے متصل 8 کلو میٹر کی فصیل بنی ہوئی ہے جس پر بروج بنے ہوئے ہیں۔ ان بروج پر مختلف قسم کے توپیں موجود ہیں۔ جن کا استعمال جنگ میں کیا جاتا تھا۔ یعنی ہر چیز قابل دید ہے اور اپنے آپ میں ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔
لیکن افسوس کہ آج ان توپوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سیاحوں کو بھی ان توپوں کا مشاہدہ کرنے سے پہلے گندگی اور بدبو سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ بدبو اور گندگی کو دیکھ کرسیاحوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔
حد تو یہ کہ شرپسند عناصر نے ان توپوں کو کاٹنے تک کی کوششیں بھی کیں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے شرابیوں کا بول بالا ہے اور جگہ جگہ شراب کی بوتلیں ایسے دکھائی دیتی ہیں جیسے توپ کو کسی شراب خانے میں لا کر رکھ دیا ہو۔
محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت تلنگانہ کی بی رخی کا عالم یہ ہے کہ اس کا رکھ رکھاؤ تو دور وہ مقام صاف صفائی تک سے محروم ہے۔
اس کی حفاظت کے لیے نہ تو حکومت اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ کوئی اقدام اٹھا رہی ہے۔