بیمبو کے اس درخت کو ہاتھی کا جھاڑ بھی کہا جاتا ہے۔درخت کی چوڑائی 25 میٹر ہے اس کے اندرونی حصے میں 30فٹ کا کمرہ ہے جس میں 40 افراد رہ سکتے ہیں- درخت کافی بڑا ہے لیکن اس پر چڑھنا اتنا ہی آسان ہے۔
مورخین کا کہنا ہے یہ درخت 600 برس قدیم ہے۔ اس درخت کی شاخیں بہت بڑی ہیں اسے بامبو درخت کہا جاتا ہے اور افریقہ میں بہت مشہور ہے۔ افریقہ کے ایک شہر میں ان درختوں کے درمیان ایک گرجا گھر تعمیر ہے۔
حیدرآباد کی تاریخ میں اس درخت کی اپنی تاریخ ہے۔ یہ درخت گزشتہ 600 برسوں کے بڑے واقعات کا خاموش گواہ ہے۔ اس نے قطب شاہی حکمرانوں کے عروج و زوال اورنگ زیب کی جنگ، آصف جاہی حکمرانی، دکن کا بھارت میں انضمام اور دیگر بڑے بڑے واقعات اس کے سینے میں دفن ہے۔
درخت کے سامنے 1 قطب شاہی خوبصورت مسجد'ملا خیالی' ہے۔ اس کے علاوہ نئی مسجد مصطفی خان جسے پتھر کی مسجد کہا جاتا ہے وہ بھی وہاں موجود ہے۔
گلف اسوسی ایشن آنے سے پہلے اس نئے قلعے کا مشاہدہ کرنے کے لیے کافی لوگ آیا کرتے تھے۔ اب اس کے اندرونی حصے میں داخلہ ممنوع ہے۔