ETV Bharat / state

عہد حاضر میں غالب کی معنویت کے عنوان سے اردو یونیورسٹی میں پروگرام

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 20, 2023, 2:21 PM IST

Programme on Mirza Ghalib in Urdu University: مرزا غالب کی شخصیت کو وقت کے دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ غالب ہر دور کے شاعر ہیں۔ اسی لیے غالب کا کلام ہر دور میں مقبول رہا ہے۔ غالب کے بارے میں ایک زاویہ کے بجائے مختلف زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Program in Maulana Azad Urdu University on the Ghalib ki Manviyat in the Present Era
Program in Maulana Azad Urdu University on the Ghalib ki Manviyat in the Present Era

حیدرآباد: اردو میں سب سے زیادہ نکتہ آفرینی اور حسن آفرینی غالب نے پیدا کی ہے۔ ایجاز و اختصار ان کے کلام کی بنیادی خوبی ہے۔" ان خیالات کا اظہار ممتاز اردو و فارسی اسکالر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے "عہد حاضر میں غالب کی معنویت" کے موضوع پر منعقدہ توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ غالب کمالات کا شاعر ہے۔ وہ انسانیت کا شاعر ہے، حقوق انسانی کا شاعر ہے۔ وہ پہلا ترقی پسند شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے ساتھ ساتھ خطوط بھی معنویت سے پُر ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال اور دیگر اہم شاعروں اور نقادوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Mirza Ghalib 225th Birth Anniversary شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غالب کو وقت کے دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہر دور کا شاعر ہے۔ اسی لیے ان کا کلام ہر دور میں مقبول رہا ہے۔ غالب کے بارے میں ایک زاویے کے بجائے مختلف زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بے جان شے کو بھی جاندار بنا کر پیش کردینے کے ہنر سے واقف ہے۔ پروفیسر سید عین الحسن نے مزید کہا کہ "دستنبو" کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو علم نجوم پر بھی دسترس تھی۔ انھوں نے انگریزوں اور ان کے افرادِ خاندان کے قتل کی مذمت کی تھی۔ وہ انسانی اقدار کے عَلَم بردار تھے۔ میں نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر "دستنبو" کا ہندی میں ترجمہ کیا جسے علمی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔“ پروفیسر سید عین الحسن نے شعبہ کے اساتذہ کی بھرپور ستائش کی اور انھیں جواہر پارہ قرار دیتے ہوئے شعبہ کی ترقی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار، مانو نے اس اہم موضوع پر لیکچر کے انعقاد کے لیے شعبۂ اردو کو مبارک باد دی اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر عزیز بانو ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ممتاز محقق و ماہر دکنیات اور سابق ڈین ایس ایل ایل آئی، مانو نے کہا کہ غالب کے چھوٹے بھائی یوسف مرزا کے داماد حیدرآباد میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ حیدرآباد کے دور دراز کے علاقوں میں غالب کی شہرت تھی۔ کلاسک وہ شہ پارہ ہے جس کی قدر ہر زمانہ میں کی جاتی ہے۔ غالب کا کلام اس اعتبار سے کلاسیکی شاعری ہے۔ اس لیے غالب کا یہ کہنا کہ 'میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں' صحیح نہیں معلوم ہوتا۔

ابتداء میں صدر شعبہ اردو پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے خیر مقدمی کلمات پیش کیے اور موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ غالب نے اپنے کلام کی بنیاد حسی تجربات پر رکھنے کی بجائے تصوراتی اور تجریدی معاملات پر رکھی ہے۔ وہ نئے مضامین اور لفظ تازہ کی تلاش میں نہایت جگر کاری سے کام لیتے ہیں۔ اظہار کی ندرت اور خیال کی پیچیدگی ان کا امتیازی وصف ہے۔ غالب کو تشکیک کا امام کہا جاتا ہے۔ غالب نے نامساعد حالات میں بھی خون دل سے چراغ جلائے ہیں۔ شکست خوردگی کے باوجود وہ افسردگی اور اضمحلال کا شکار نہیں ہوتے۔ غالب کا کلام ایک حیرت انگیز دنیا ہے۔ وہ نشاط زیست اور آشوب آگہی کا شاعر ہے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر محمد اختر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو نے کی۔ شعبہ کے استاد ڈاکٹر جابر حمزہ نے کلمات تشکر پیش کیے۔ پروگرام کا آغاز محمد سلمان ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ اس موقع پر شعبہ جات اردو، فارسی، ہندی، ترجمہ، مرکز مطالعات اردو ثقافت، مرکز پیشہ ورانہ فروغ برائے اردو میڈیم اساتذہ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے اساتذہ کے علاوہ طلباء و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

حیدرآباد: اردو میں سب سے زیادہ نکتہ آفرینی اور حسن آفرینی غالب نے پیدا کی ہے۔ ایجاز و اختصار ان کے کلام کی بنیادی خوبی ہے۔" ان خیالات کا اظہار ممتاز اردو و فارسی اسکالر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے "عہد حاضر میں غالب کی معنویت" کے موضوع پر منعقدہ توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ غالب کمالات کا شاعر ہے۔ وہ انسانیت کا شاعر ہے، حقوق انسانی کا شاعر ہے۔ وہ پہلا ترقی پسند شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے ساتھ ساتھ خطوط بھی معنویت سے پُر ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال اور دیگر اہم شاعروں اور نقادوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Mirza Ghalib 225th Birth Anniversary شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غالب کو وقت کے دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہر دور کا شاعر ہے۔ اسی لیے ان کا کلام ہر دور میں مقبول رہا ہے۔ غالب کے بارے میں ایک زاویے کے بجائے مختلف زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بے جان شے کو بھی جاندار بنا کر پیش کردینے کے ہنر سے واقف ہے۔ پروفیسر سید عین الحسن نے مزید کہا کہ "دستنبو" کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو علم نجوم پر بھی دسترس تھی۔ انھوں نے انگریزوں اور ان کے افرادِ خاندان کے قتل کی مذمت کی تھی۔ وہ انسانی اقدار کے عَلَم بردار تھے۔ میں نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر "دستنبو" کا ہندی میں ترجمہ کیا جسے علمی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔“ پروفیسر سید عین الحسن نے شعبہ کے اساتذہ کی بھرپور ستائش کی اور انھیں جواہر پارہ قرار دیتے ہوئے شعبہ کی ترقی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار، مانو نے اس اہم موضوع پر لیکچر کے انعقاد کے لیے شعبۂ اردو کو مبارک باد دی اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر عزیز بانو ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ممتاز محقق و ماہر دکنیات اور سابق ڈین ایس ایل ایل آئی، مانو نے کہا کہ غالب کے چھوٹے بھائی یوسف مرزا کے داماد حیدرآباد میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ حیدرآباد کے دور دراز کے علاقوں میں غالب کی شہرت تھی۔ کلاسک وہ شہ پارہ ہے جس کی قدر ہر زمانہ میں کی جاتی ہے۔ غالب کا کلام اس اعتبار سے کلاسیکی شاعری ہے۔ اس لیے غالب کا یہ کہنا کہ 'میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں' صحیح نہیں معلوم ہوتا۔

ابتداء میں صدر شعبہ اردو پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے خیر مقدمی کلمات پیش کیے اور موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ غالب نے اپنے کلام کی بنیاد حسی تجربات پر رکھنے کی بجائے تصوراتی اور تجریدی معاملات پر رکھی ہے۔ وہ نئے مضامین اور لفظ تازہ کی تلاش میں نہایت جگر کاری سے کام لیتے ہیں۔ اظہار کی ندرت اور خیال کی پیچیدگی ان کا امتیازی وصف ہے۔ غالب کو تشکیک کا امام کہا جاتا ہے۔ غالب نے نامساعد حالات میں بھی خون دل سے چراغ جلائے ہیں۔ شکست خوردگی کے باوجود وہ افسردگی اور اضمحلال کا شکار نہیں ہوتے۔ غالب کا کلام ایک حیرت انگیز دنیا ہے۔ وہ نشاط زیست اور آشوب آگہی کا شاعر ہے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر محمد اختر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو نے کی۔ شعبہ کے استاد ڈاکٹر جابر حمزہ نے کلمات تشکر پیش کیے۔ پروگرام کا آغاز محمد سلمان ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ اس موقع پر شعبہ جات اردو، فارسی، ہندی، ترجمہ، مرکز مطالعات اردو ثقافت، مرکز پیشہ ورانہ فروغ برائے اردو میڈیم اساتذہ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے اساتذہ کے علاوہ طلباء و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.