مشرقی گوداوری ضلع کے 23 سالہ اے پرساد نامی نوجوان نے گذشتہ روز یہ مکتوب روانہ کیا تھا اور ان سے خواہش کی تھی کہ نکسل تحریک میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے کیونکہ لا اینڈ آرڈر انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ وہ اپنے وقار کے تحفظ کے لئے دوسرے طریقہ کار پرغور کررہا ہے۔
اس مکتوب نے ریاست میں ہلچل مچادی۔ 20جولائی کو دلت نوجوان کے سر کو مشرقی گوداوری ضلع کے سیتانگرم پولیس اسٹیشن میں مونڈھ دیا گیا تھا۔
اس کودوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص اور ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے ساتھ ریت مافیا پر ہوئے مبینہ جھگڑے کے بعد پولیس اسٹیشن طلب کرتے ہوئے اس کا سر مونڈھ دیا گیا تھا۔
پرساد نے الزام لگایا کہ ایس آئی شیخ فیروز شاہ اور دیگر ملازمین پولیس نے یہ حرکت کرتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس کے مقامی لیڈر کی ایمار پر اس کی بے عزتی کی کیونکہ اس نے علاقہ میں غیر قانونی ریت کی کانکنی پر سوال اٹھایا تھا۔
اس واقعہ کے ایک دن بعد فیروز کو معطل کرتے ہوئے اس کو گرفتار کرلیا گیا اور دیگر دو کانسٹیبلز کے ساتھ اس کو جیل بھیج دیاگیا جبکہ دیگر دو ملازمین پولیس تادیبی کارروائی کا انتظار کررہے ہیں۔
پرساد نے رام ناتھ کووند کو کئے گئے اس میل میں کہا کہ وہ یہ مکتوب انہیں تحریر کررہا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں دیگر ملزمین کی ہنوز گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے اور پولیس عہدیداروں کے کالس کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئی جس کامقصد اس واقعہ کے حقیقی مجرمین کو بچانا ہے۔
پرساد نے کہاکہ مشرقی گوداوری ضلع ایس اور کلکٹر نے بھی اس معاملہ پر سنجیدگی نہیں دکھائی ہے۔ پرساد نے کہا کہ بعض افراد نے اس کی شبیہ کو متاثر کیا ہے اور اس کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
تاہم ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈی آئی جی کے وی موہن راؤ نے دعوی کیا کہ شکایت کنندہ کے تحفظ کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بعض مفاد پرست لیڈران، سیاسی فائدہ کے لئے پرساد کا استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرساد کا بیان عوامی سلامتی کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ماؤنوازوں کی تنظیم پر ریاست میں پابندی ہے اور ایسے بیان سے غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے دوسروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔