مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت کی جانب سے لو جہاد کو روکنے کے لیے مذہبی آزادی قانون کے آرڈیننس کو منظور دیئے جانے کے بعد حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں ’لو جہاد‘ کی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں لو جہاد سے متعلق قانون بناک آئین کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ بی جے پی حکومتوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر قانون بنانا ہے تو روزگار مہیا کرنے اور تعلیم پر قانون بنائیں‘۔
مجلس کے رہنما نے کہا کہ مودی حکومت کو زرعی شعبہ میں آرڈیننس لانے کے بجائے ملک کے نوجوانوں کو روزگار دینے کےلیے کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت پر عام شہریوں کی زندگی میں تاک جھانک کرنے کا بھی الزام لگایا۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 21، 14 اور 25 کے تحت حکومت کسی بھی شہری کی ذاتی زندگی میں اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے بی جے پی پر آئین کے بنیادی حقوق کو پامالی کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے قوانین بناکر بی جے پی عوام کے درمیان نفرت پھیلانا چاہتی ہے۔
انہوں نے ’مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا یہ لوگ بھی ’لو جہاد‘ میں شامل ہیں‘؟ انہوں نے کہا کہ ’جس طرح جنوبی آفریقہ میں مہاتما گاندھی کو ٹرین سے باہر نکالدیا گیا تھا اسی طرح کا ماحول بہت جلد بھارت میں بھی ہوگا اور مسلمانوں، دلتوں کو بعض جگہ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
قانون کے مطابق سازش کے تحت مذہب تبدیل کرانے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی اور آرڈیننس کے تحت دس سال کی سزا اور ایک لاکھ روپیہ تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔