حیدرآباد: ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، لیکن کچھ پرانی چیزیں ہمیشہ اچھی لگتی ہیں۔ ریڈیو بھی ان میں سے ایک ہے۔ اگرچہ آج کل ریڈیو کی جگہ موبائل نے لے لی ہے، لیکن پرانے زمانے کے ریڈیو اب بھی دل کی دھڑکنوں کو کھینچتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے شہر حیدرآباد کے چھتہ بازار علاقے میں ’محبوب ریڈیو سروس‘ کے نام سے ایک دکان واقع ہے، جہاں آج بھی ریڈیو کی پرانی مدھر موسیقی گونج رہی ہے۔ یہاں ایسے ریڈیو سیٹس کی مرمت کی جاتی ہے جو بالکل بیکار یا نایاب ہوچکے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے اور نایاب ریڈیو سیٹس اور ٹیپ ریکارڈر سے بھری یہ دکان سو سال پرانی ہے۔ دکان کے شیلفوں پر مرفی، ایچ ایم وی، مارکونی، فلپس، نارمنڈی جرمن، گرونڈیگ اور بُش جیسے برانڈز کے ریڈیوز موجود ہیں، جو ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔
محمد معین الدین صبح شام اس شاپ پر ریڈیو کی مرمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دکان ان کے والد کے نام پر ہے، جنہوں نے سنہ 1910 میں یہ کا کام شروع کیا تھا۔ اس وقت حیدرآباد کے چند منتخب نوابوں کے پاس ہی ریڈیو ہوا کرتے تھے۔ معین الدین نے کہا کہ چھوٹے نظام میر محبوب علی خاں نے دکن میں پہلا ریڈیو لایا تھا جو 30 فیٹ چھوڑا اور لمبا تھا اس ریڈیو کی مرمت میرے والد محمد محبوب کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ محبوب ریڈیو دوکان پر خبریں سننے کے لیے معزز لوگ صحافی اور کئی لوگ جمع ہوتے تھے -جب ریڈیو میں کچھ خرابی آجاتی تو وہ ٹھیک کروانے کے لیے میرے والد کے پاس ہی لاتے تھے۔ محمد معین الدین نے بتایا کہ حیدرآباد میں یہ واحد دکان ہے جہاں ملک اور بیرون ملک سے لوگ پرانے ریڈیو کی مرمت کروانے آتے ہیں۔ ’پرانے ریڈیو کے چاہنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ دکان پر آتے ہیں اور پرانے زمانے کے ریڈیوز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک دور تھا جب ریڈیو خبروں اور تفریح کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس قدر ریڈیو کے دیوانے تھے کہ اسے الماری پر سجا کے رکھتے تھے اور ارد گرد جمع ہو کر سنتے۔ کرکٹ کمنٹری ہو یا ملکی و غیر ملکی خبریں، لوگ سننے کے لیے پرجوش نظر آتے تھے۔ پہلے لوگ کسی خبر کی تصدیق کے لیے فخر سمجھتے تھے کہ یہ بات ہم نے ریڈیو پر سنی ہے۔ اب تو زمانہ بدل گیا، ریڈیو کا دور ختم ہوا۔ ہر چیز کی رسائی اب انگلیوں پر ہے۔ موبائل فون، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر کی مدد سے جو چاہے دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ اب ریڈیو ایف ایم پر گانے سننے تک محدود رہ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Muslim Family Assaulted in Medak میدک میں مسلم خاندان پر ہجومی حملہ، بی جے پی کارپوریٹر سمیت گیارہ کے خلاف مقدمہ درج