'مولانا آزاد یادگاری خطبہ' ممتاز اسکالر پروفیسر رضوان قیصر شعبہ تاریخ و ثقافت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے بعنوان 'سیاست، تعلیم اور ثقافت: مولانا ابوالکلام آزاد اور بھارتی قومیت' پر خطاب کیا۔
پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ 'مولانا ابوالکلام آزاد ایک تاریخ ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کے مستقبل کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'مولانا آزادؒ نے ملک کی آزادی کے بعد شاندار کارناموں کی میراث چھوڑنے کے ساتھ ایک اہم نظریہ ساز کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایسی شخصیت کو صرف خراج پیش کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان سے تحریک حاصل کرنی چاہیے۔
مولانا آزاد کی نظریہ ساز شخصیت کے ارتقاءکا جائزہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ 'الہلال کے دور میں مولانا نے جن نظریات کی اشاعت کی ان میں یہ بات واضح تھی کہ اسلام اور غلامی دو متضاد چیزیں ہیں وہ ایک نہیں ہوسکتیں، اقلیت اور اکثریت کا فیصلہ افراد کی تعداد پر نہیں بلکہ کارناموں پر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو ہندوﺅں سے دوری نہیں بلکہ دوستی کرنی چاہیے۔ اس طرح مولانا آزاد نے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو جدو جہد آزادی سے جوڑا وہیں ان کے پست ہوتے حوصلوں کو بلندی عطا کی اور بتایا کہ مسلمانوں کے اسلاف نے ملک کی ترقی و تعمیر میں اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ ہندو - مسلم بھائی چارہ کے ذریعہ ملک کی آزادی کا حصول ممکن ہے۔
پروفیسر رضوان قیصر نے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'عمومی طور پر مولانا آزاد کے سیاسی نظریات کے آغاز کو 1912 میں الہلال کی اشاعت سے مربوط سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ 1906 ءمیں ہی جدو جہد آزادی سے جڑ چکے تھے۔ مولانا آزاد اس وقت کے مجاہدین آزادی کو جو عمومی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تحریک آزادی سے وابستہ نہیں ہیں، ان لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ مسلمان بھی اس جنگ میں اُن کی طرح شریک ہیں'۔
انہوں نے ابتداءمیں 'الہلال میں کہا کہ مسلمان خود قائد بن کر جدو جہد آزادی کی کمان سنبھالیں۔ لیکن بعد میں ان کا یہ نظریہ بدل گیا اور انہوں نے برادران وطن کے ساتھ مل کر جدو جہد آزادی میں حصہ لینے پر زور دیا۔ جب 1916 میں رانچی میں انہیں نظر بند کردیا گیا تو انہوں نے وہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس کے قیام کا مقصد متعلمین کی تیاری تھا۔ اس مدرسے میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، جغرافیاءجیسے مضامین کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا۔ مدرسہ کے قیام کے لیے ہندوﺅں اور مسلمانوں دونوں نے تعاون کیا۔ گاندھی جی نے جب خلافت اور عدم تعاون تحریک چلائی تو اس وقت مولانا آزاد نے ہندو- مسلم اتحاد کو اسلام کے بین الاقوامی نظریہ سے جوڑتے ہوئے ”تخلیقی سیاست“ کا مظاہرہ کیا'۔
پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ 'مولانا آزاد نے ہندو -مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے میثاقِ مدینہ کی مثال پیش کی اور کہا کہ ملک کی آزادی کے لیے یہی طریقہ کار اپنانا ضروری ہے۔ وہ دو قومی نظریہ کے سخت مخالف تھے اور وفاقی حکومت چاہتے تھے۔ آج ملک میں وفاقی حکومت کی کامیابی ان کے نظریہ کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ آزادی کے بعد جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے تعلیمی نظام کے استحکام کے لیے دو کمیشن قائم کیے۔ یونیورسٹی /کالج تعلیمی کمیشن اور ثانوی تعلیم کمیشن۔ دونوں اداروں کی کارکردگی آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مولانا نے بھارت کے ادبی اور ثقافتی تنوع کو مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے ساہتیہ اکیڈیمی، للت کلا اکیڈیمی اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی جیسے اداروں کی داغ بیل ڈالی۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت اور یہاں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز قائم کیا'۔
پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ 'مولانا آزاد کو محض خراج پیش کرنا کافی نہیں۔ ان کے پیام اور نظریات کو سمجھتے ہوئے ان سے تحریک حاصل کرنا ضروری ہے'۔
پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ 'مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم فلسفی، ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات تھے۔ انہوں نے صرف اپنے بل بوتے پر بہت کچھ سیکھا۔ مولانا آزاد کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی اپنی ہر اہم تقریر میں مولانا آزاد کا ذکر کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 'مولانا آزاد اور مدن موہن مالویہ نے انگریزی کی اہمیت پر بھی زور دیا'۔
پروفیسر نوشاد حسین رجسٹرار انچارج نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد ظفر الدین، صدر نشین، یوم آزاد تقاریب نے تقاریب پر رپورٹ پیش کی، خیر مقدم کیا اور مہمان کا تعارف کروایا۔
انیس اعظمی مشیر اعلیٰ، مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت نے کارروائی چلائی۔ ابتداءمیں انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کی جانب سے ایک مولانا آزاد کو ایک ویڈیو کے ذریعہ خراج پیش کیا گیا۔