حیدرآباد (محمد شاداب عالم) تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس بھارت میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں منعقد کی گئی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، جنہوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ MANUU Celebrates Urdu Journalism Conference
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے عارفہ خانم شیروانی نے اردو صحافت سے متعلق کہاکہ' اردو اور صحافت دونوں پر زوال آیا ہے۔ اردو کو مسلمان بنا کر ستایا جارہا ہے، جب کہ صحافت کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے ارود اخبارات اور رپورٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ' جب وہ اردو اخبارات پڑھتی ہیں تو انہیں افسوس نہیں بلکہ راحت محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ سوچتی ہیں کہ، ہندی صحافت، ٹی وی صحافت یا عام صحافت میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ان میں ایک پوری قوم کے قتل عام کی گونج سنائی دیتی ہے، اسے با قاعدہ لوگ لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں جو اس ملک کو ایک فاشست ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے دور میں انہیں اردو اخبارات پڑھ کر راحت محسو ہوتی ہے۔ یہاں پھول برسائے جاتے ہیں شاعری ہوتی ہے۔ حالانکہ انہوں نے اردو میں انوسٹیگیٹو صحافت کی کمی پر تشویش اظہار کرتے ہوئے اس پر کام کر نے پر زور دیا۔ Lack of investigative journalism in Urdu is alarming
اردو صحافت کے مستقبل پر بولتے ہوئے معروف صحافی شکیل شمشی نے کہاکہ' جہاں تک اردو اخبارات کی اشاعت اور فروخت کا سوال ہے، وہ اس سلسلے میں ناامید نہیں ہے۔ کیوں کہ اردو اخبارات کو لوگ خرید کر پڑھ رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اردو کے اخبارات کو کارپوریٹ گھرانے نہ چلارہے ہوتے۔ انہوں ایڈین ریڈرشپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ' سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف انقلاب کو پڑھنے والوں کی تعداد ایک ملین کے قریب ہے۔ سروے میں راشٹریہ سہارا، اخبار مشرق، سیاست سمیت سبھی اخبارات سے متعلق تفصیلی معلومات درج ہے۔ انہوں نے کہاکہ' یہ اخبارات اتنے سستے بھی نہیں، بلکہ ان اخبارات کی قیمت پانچ سے سات روپے ہے، لوگ پیسے دے کر اخبارات کو خریدتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ وہ اخبارات کی اشاعت اور فروخت کے سلسلے میں فکرمند نہیں ہے، بلکہ اخبارات میں مواد کی کمی کو زوال کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہوں زور دیے کر کہاکہ عوام کو اردو زبان سے محبت ہے، آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں وہ خود خرید کر پڑھیں گے اگر اردو اخبارات میں عوام کے جذبات و احساسات کی صحیح ترجمانی کر رہے ہوں۔'
وہیں معروف صحافی اعظم شاہد نے اصلاح پر بات کرتے ہوئے کہاکہ' اردو میڈیا چاہیے وہ ڈیجیٹل ہو یا پرنٹ دونوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اردو میڈیا میں ایک خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے یہاں کام چلاؤ کی روایت چلن میں ہے۔ جیسا ہے اسی کو آگے بڑھاؤ ، اردو میڈیا میں عصری تقاضوں کی تکمیل کے لیے اصلاحات ضروری ہے۔
معروف صحافی عزیز برنی نے کہاکہ' جب بھی اردو اخبارات کا ذکر آتا ہے۔ اشتہار کا ذکر بھی آتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ انہیں لگتا ہے کہ اردو کے جن اخبارات کو اشتہارات ملتے ہیں وہ صرف اشتہارات کےلیے چھپتے ہیں عوام کےلیے نہیں چھپتے، ایسی اخبارات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے اردو اخبارت کو درپیش چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ' اردو اخبارات کو جو چیلنج ماضی میں تھے وہ مختلف تھے اور آج کا چیلنج مختلف ہے۔
مزید پڑھیں: