حیدرآباد (محمد شاداب عالم) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جش بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرساد نے اس تاثر کی نفی جس میں اردو زبان کو مسلمانوں کا زبان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اردو ایک تہذیب ہے اور اس کو زندہ رکھنا ہمارا اولین فرض ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا ہے کہ اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن مانو میں منعقد ہورہا ہے، بلکہ اس میں مرضی غیب بھی شامل ہے۔ کیوں کہ مولانا آزاد کی نسوں میں حب الوطنی اور صحافت گردش کرتی تھی۔ مولانا بذات خود ایک جانے مانے ادیب اور صحافی تھے۔ صحافت کا سفر انہوں نے کم عمری میں شروع کردیا تھا، سنہ 1912 میں الہلال اور 1914 میں البلاغ جسے اخبار اس عہد میں شائع کیے جب برطانوی حکومت کو اپنی مخالفت اور خاص طور پر مخالف صحافت تو قطعی برداشت نہیں تھی۔ International Conference on Urdu Journalism
اردو صحافت کے ابتدائی دور میں یا یوں کہیں کہ جدوجہد آزادی کے دوران نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بیروں ملک میں بھی اردو اخبارات اور رسائل کی اشاعت پابندی سے ہورہی تھی۔ یعنی سارے جہاں میں دھوم تب بھی ہمارے زبان کی ہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ' کسی بھی زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ' زبان کے بغیر عالمی سطح پر نہ تو کوئی انقلاب لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخی پہلوؤں سے کما حقہ واقفیت ہوسکتی ہے۔ زبان ہمارے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔ زبانیں ہماری شناخت کی علامت ہے، جو قوم اپنی زبان کی نعمت سے محروم ہوتی ہے، دنیا اس قوم کو فراموش کردیتی ہے۔ زبانیں رابطے کا ذریعہ تو ہے ہی، ساتھ انسان کے مزاج، اخلاق، احساسات، جذبات اور دلی کیفیات کے اظہار کا وسیلہ بھی ہیں۔ اردو فلسلفہ حیات، گنگا جمنی تہذیب کا خلوص، بین الریاستی مزاج اور دور جدید کے سو حسن خود میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ کشادہ دل اور مہمان نواز اردو میں حفظ مراتب کا جو سلیقہ ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ اپنے لیے خاکسار عرض کرنا، غریب خانہ، حاضر ہونا اور اپنے آپ کے لیے بندہ پرور فرمانا، دولت خانہ اور تشریف لانا۔ یہ لحاظ و ملاحظہ ہمارے کلچر کی شناخت ہے۔ اردو والوں کی کشادہ دلی و کشادہ ذہنی نے اپنی تہذیب اپنی زبان و ادب، شیخ و برہمن کی نصیحتوں میں اور پیر حرم کی خواہشوں سے اول مانا ہے۔ مذہب کو زبان درکار ہے، لیکن زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
مجھ سے کہا جبریل جنوں نے یہ بھی وحی الہٰی ہے
مذہب تو بس مذہب دل ہے باقی سب گمراہی ہے
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ سبھی کو معلوم ہے کہ پہلا اردو کا اخبار جام جہاں نما سنہ 1822 میں کولکاتا سے جاری ہوا۔ پہلا ہندی اخبار بھی ادنت مار تن کولکاتا سے ہی چار برس بعد 30 جنوری سنہ 1826 کو شروع ہوا۔ فارسی کا پہلا اخبار مراۃ الاخبار بھی کولکاتا سے 12 اپریل 1822 سے شروع ہوا۔ جب کہ ایران میں پہلا فارسی اخبار 1837 میں شائع کیا گیا۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں چھپنے والے یہ تینوں اخبار کے مالک اور مدیر ہندو تھے۔ پھر بھی ہم شیر سے شکر الگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اردو ہندوستانی زبان سمجھتی ہے۔
مزید پڑھیں: