اقتصادی سرگرمی مارچ میں مزید تیزی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے۔ کیونکہ یکم اپریل سے نئے مالی برس کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عرصے میں تمام اخراجات، آمدنی اور بقایاجات کے سسلسلے میں پوری وضاحت کے ساتھ اندراجات کا حساب کیا جاتا ہے۔
حکومت کے اخراجات اور محصولات کی وصولی دونوں کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ تاہم عالمی وبائی امراض کورونا وائرس (کووڈ۔ 19) کے پھیلنے سے یہ عمل مکمل رک سا گیا ہے۔
جنوری۔ مارچ کے کوارٹر (سہ ماہی) میں بھارت کی معیشت سست روی کا شکار رہی ہے۔ اس عرضے میں اہم فیصلے لینے اور انھیں صحیح رخ پر موڑنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس وبا سے قبل موجودہ مالی سال میں مزید تیز رفتاری کا خیال کیا جارہا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اچھی بات یہ تھی کہ صنعتوں کی اوٹ پوٹ میں فروری کے دوران 4.5 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا تھا۔
نیشنل انسٹی ٹیٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی:
نئی دہلی میں واقع نیشنل انسٹی ٹیٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی(NIPFP) میں شعبہ معاشیات کے پروفیسر این آر بھنمورتی کا کہنا ہے کہ 'صنعتی شعبہ میں ایک یقینی بازیابی ہوئی تھی، اس کی وجہ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ پالیسی اقدامات تھے جو صنعتی پیداوار کے انڈکس (ائی ائی پی) میں واضح طور پر نظر آتے ہیں'۔
انڈیکس آف انڈسٹریل پروڈکشن (IIP) کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں فیکٹری آؤٹ پٹ کو رواں برس فروری میں 4.5 فیصد کی صحتمند نشوونما ریکارڈ کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس کے اختتام پر ہی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (3.2٪)، بجلی کی تیارت (8.1٪) اور کان کنی کے شعبے (10٪) میں زبردست نمو حاصل ہوئی تھی۔
ابتدائی سامان (ضروری اشیا) اور درمیان سامان (خوبصورتی اور سجاوٹ سے متعلق اشیا) کی تیاری میں بھی بالترتیب 7.4 فیصد اور 22.4 فیصد کی سطح پر صحت مند اضافہ ہوا۔
متعدد شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری:
تاہم تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کے سامان کی پیداوار کے ساتھ مناسب کام نہیں ہوا۔ جو ایک اہم جز ہے جو معیشت میں طلب کی عکاسی کرتا ہے ، اس میں 9.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ سال فروری میں بھی اس میں 9.3 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
انڈیکس آف انڈسٹریل پروڈکشن کی شرح نمو:
مزید برآں گذشتہ مالی سال میں اپریل سے فروری کے دوران آئی آئی پی کی نمو میں مالی برس 19-2018 کی اسی مدت کے دوران ریکارڈ کی گئی 4 فیصد ترقی کے مقابلے میں مجموعی طور پر 0.9 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین نے اس بازیابی کی وجہ پچھلے برس اگست سے ستمبر کے عرصہ میں وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کے ذریعہ اعلان کردہ محرک اقدامات کو قرار دیا ہے۔
صنعتی پیداوار میں عدم توازن:
صنعتی پیداوار میں اضافے کے سلسلے میں نرملا سیتارامن نے کارپوریٹ ٹیکس کی موثر شرح کو 25.17 فیصد تک کم کردیا ہے اور گذشتہ سال یکم اکتوبر کے بعد قائم کی جانے والی نئی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 17.01 فیصد تک لایا گیا تھا۔ جس میں سیس اور سرچارج بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت اور آر بی آئی نے بحران سے متاثرہ این بی ایف سی اور ہاؤسنگ فنانس کمپنیوں کے لیے منافع کو بڑھانے کے متعدد اقدامات بھی جاری کردیئے تھے۔
جی ڈی پی ریکارڈ:
گذشتہ مالی سال میں تیسری سہ ماہی (اکتوبر دسمبر) میں بھارت کی مجموعی گھریلوں پیداور (جی ڈی پی) نمو 4.7 فیصد ریکارڈ کی گئی، یہ چھ برسوں میں سب سے کم رفتار ہے۔
تاہم پچھلے سال اگست تا ستمبر میں محرک اقدامات کے اعلان کے بعد متعدد معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ جی ڈی پی کی نمو میں کمی تیسری سہ ماہی میں پھیل جائے گی اور چوتھی سہ ماہی میں اس کی رفتار بڑھ جائے گی۔ اس کے باوجود جاری کردہ آئی آئی پی کے اعداد و شمار نے بڑے پیمانے پر منعقد کیے گئے پیش کش کی تصدیق کردی ہے۔ اس کے برعکس کووڈ 19 وبائی بیماری کے وباء نے صورتحال کو ایکسر بدل دیا ہے۔
ماہر اقتصادیات پروفیسر این آر بھانمورتی کی رائے:
پروفیسر این آر بھانمورتی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا ہے کہ 'فروری کے بعد ہمارے پاس بالکل مختلف صورتحال ہے، جو بھی ہلکی بازیافت (معاشی ترقی) ہم نے دیکھی ہے ۔ وہ مارچ سے مکمل طور پر رک گئی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'مارچ میں ترقی مزید زور پکڑ سکتی تھی کیونکہ مارچ میں خدمات کے شعبے میں تیزرفتار سرگرمیاں اور جی ایس ٹی میں تیزی آنے والی تھی۔ لیکن اس عرصے کے دوران سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوا ہے'۔
پروفیسر بھنومورتی نے تجزیہ کیا کہ 'اس طرح کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ NSO نے جس سال پیش گوئی کی تھی اس سال کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد کے قریب ہوگی لیکن مارچ کے مہینے میں دھچکا ہونے کی وجہ سے یہ 4 سے 4.5 فیصد کے قریب ہونا چاہئے'۔
حکومتی اقدامات:
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ محرک اقدامات کا پچھلے مہینے میں معاشی سرگرمی پر بہت کم اثر پڑے گا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے ملک کے 80 کروڑ سے زیادہ غریب عوام کو تین ماہ کی مدت میں ان کے لئے اہم کھانا، ایندھن اور کچھ نقد رقم فراہم کرنے کے لئے 1.7 لاکھ کروڑ روپے کے وزیر اعظم غریب کلیان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
ریزرو بینک نے گذشتہ ماہ کے آخر میں بینچ مارک لونڈنگ ریٹ کو 75 بیس پوائنٹس میں کمی کرکے اپنی پاور ریٹ بھی جاری کردی۔
آر بی آئی نے بازار میں لیکویڈیٹی ( خریداری کی سکت) بڑھانے کے لئے متعدد اقدامات کا بھی اعلان کیا۔ اس نے یونین اور ریاستوں کے لئے ویز اور مطلب ایڈوانسز (ڈبلیو ایم اے)، اوور ڈرافٹ کی حد کو بھی نرمی میں مدد دی تاکہ وہ مشکل وقت میں مزید اضافے کے لئے زیادہ خرچ کرنے میں مدد کریں۔ لیکن یہ کافی نہیں ہوسکتا ہے۔
پروفیسر این آر بھانمورتی نے کہا کہ 'حکومت کی طرف سے اخراجات میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کی وجہ سے معیشت میں طلب کی حالت میں کوئی اضافہ ہوا ہوگا'۔