سوشل میڈیا پر اس سے متعلق تفصیلی پیغامات میں اسپتال کا پتہ،کئی لینڈ لائن نمبرات بھی دیئے گئے ہیں اور اس مرض سے جدوجہد کرنے والے غریب عوام کی مایوسی کو بھی بتایا گیا ہے۔
اس پیغام میں جنی اسپتالوں میں بھاری بلوں کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے، ایسے ہی ایک اور پیغام سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے جس میں پپائی کے پتے کے کیپسول کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ یہ کیپسول اس مرض کے علاج کے لیے کافی فائدہ مند ہے۔
دوسری طرف ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ پپائی اور ڈینگو کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ان اسپتالوں کے سپرنٹنڈنٹس نے اس طرح کی افواہوں کو مسترد کردیا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صرف علامات کی بنیاد پر ہی ڈینگو کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ علامات کے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔
عثمانیہ اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بی ناگیندر نے کہا کہ اسپتال کے احاطہ میں ایسی کوئی بھی دوا ڈینگو کے لیے دستیاب نہیں ہے۔سرکاری اسپتالوں میں اس کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال اس سیزن میں انھیں اس طرح کی افواہوں سے نمٹنا پڑتا ہے، بیشتر اوقات یہ افواہیں اسپتال کے باہر کی فارمیسیوں کی جانب سے پھیلائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈینگو کا علاج کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ علامات ظاہر ہونے پر اس کی دوائیاں ہیں۔ڈینگوکے علاج کے لیے کوئی مخصوص دوا نہیں ہے۔